urdu ghazal ky jadeed azeem shura


جدیداردوغزل
۔فراق گورکھپوری(۱۸۹۶ء ؁۔۱۹۸۲ء ؁)۱
اصل نام رگھوپتی سہائے ہے اور فراق گورکھپوری ان کا قلمی نام ہے۲۸ اگست ۱۸۹۶ء ؁ بروز جمعہ گورکھپور میں پیدا ہوئے والد کانام گورکھ پرشاد والدہ دلاری دیوی آبائی وطن بنوار پار تحصیل بانس گاؤں ضلع گورکھپور ہے۔ تعلق سری واستو کائستھ خاندان (برہمن)سے ہے۔پردادا کا نام جانکی پرشاد ہے۔فراق کی زندگی بے حد تلخیوں سے عبارت ہے یہی وجہ ہے کہ بقول ٖڈاکٹر شمیم حنفی "جب تک فراق کی زندگی کو نہیں سمجھ لیتے تب تک ان کی شاعری کو نہیں سمجھا جاسکتا۔فراق کے ہاں ہمیں تین لہجے ملتے ہیں سنسکرت، ہندی اور انگریزی۔ گورکھ پرشاد اپنے زمانے کے پڑھے لکھے تھے ہندی فارسی فراق کو گھر سے ہی مل گئی فراق نے اس وقت کے مشہور عالم مولوی صادق علی سے فیض اکتساب کیا۔گورکھ پرشاد کو عربی فارسی پر اچھی دسترس تھی ۔ وہ پہلے معلم تھے اور بعد میں معلمی کا پیشہ چھوڑ کر وکا لت کا پیشہ اختیار کر لیا۔معاشی طور پر آسودہ اور خوشحال تھے شاعر بھی تھے اور شاعری میں عبرت تخلص کرتے تھے اور شاعری میں مولانا محمد حسین اور مولاناحالی سے متاثر تھے خود عام درجے کے شاعر تھے۔لیکن انہوں نے ایک لاجواب مثنوی "حسنِ فطرت"بھی لکھی یہ مثنوی اچھے درجے کی شمار کی جاتی ہے اوریہ ایک الگ فن پارہ ہے۔اس مثنوی کو مجنوں گورکھپوری کے رسالے" ایوان"میں ۱۹۳۱ ؁ء میں شائع کیا گیااور ۱۹۸۲ ؁ء میں اسے لکھنؤ اکادمی نے باقاعدہ کتابی شکل میں شائع کیا ۔فراق کے ہاں سادھو سنتوں کا بھی آنا جانا تھافراق کو ایسا لب و لہجہ مل رہا ہے جس میں سادو سنت بھی آ رہے ہیں اور باپ کر طرف سے کلاسیکی شعری روایات بھی مل رہی ہے ۱۸جون ۱۹۱۸ء ؁ کو گورکھ پرشاد فوت ہے گئے فراق کی زندگی دکھوں ،امتحانوں،ناکامیوں، تنہائیوں،بے بسی،مجبوریوں، آزمائشوں اور تلخیوں سے بھری پڑی ہے۔۲۲سال کی عمر میں یتیم ہو گئے۔فراق گورکھ پرشاد کی تیسری بیوی دلاری دیوی کے بطن سے تھے ۲۴ سال عمر تھی بڑا بھائی گنپتی سہائے چل بسا۲۶ سال عمر ہوئی ایک اور بھائی دھنپتی سہائے نے بھی جہانِ فانی سے کوچ کیا۔تیسرا بھائی یدوپتی سہائے ۱۹۷۶ء ؁ میں فوت ہو گیا ایک کے بعد ایک امتحان اور آزمائشوں نے فراق کو آڑے ہاتھوں لیا ۔ فراق کی زندگی میں تین بھائی فوت ہوئے ، کم عمری میں یتیم ہو گئے ۱۸ سال کی عمر میں کشوری دیوی سے شادی ہو گئی جو کامیاب نہ ہو سکی بیوی سے بھی آسودگی نہیں ملی فراق جتنا بڑا آدمی تھا دکھ اور تکلیفیں بھی اسے اتنی ہی بڑی برداشت کرنی پڑیں۔چار بچّے پیدا ہوئے پربھا،گوون سہائے، پریما اور پشپا دیوی۔ پربھافراق کی زندگی میں ہی فوت ہو گئی بیٹا ۱۵ یا ۱۶ سال کی عمر میں خود کشی سے لقمہ اجل بن گیا باقی دونوں بیٹیوں کی شادی ہو گئی جنہوں نے باپ کو مرتی حالت میں بھی اپنایت اور خون کے رشتے کا احساس تک نہ دیا گھریلو زندگی کی وجہ سے بچے نفسیاتی مریض ہو گئے فراق کا اپنی اولاد کے ساتھ تعلق بھی پیدا نہ ہو سکا۔فراق کی بڑی بیٹی پربھا دیوی ۲۰ یا ۲۲ سال کی عمر میں تپ دق کے مرض کی وجہ سے فوت ہو گئی جوان بیٹا بھی ساتھ چھوڑ گیا بیوی کشوری دیوی ان پڑھ تھی اور خوبصورت بھی نہیں تھی جبکہ فراق حسن پرست تھا۔فراق ایک پڑھے لکھے قابل شخص تھے جو فارسی انگریزی ہندی کو خوب جانتے تھے۔فراق ۳مارچ ۱۹۸۲ء ؁ کو فوت ہوئے ۱۹۸۳ء ؁ میں لکھنؤ میں ان کیلئے پہلی برسی کا اہتمام کیا گیاپشپا ان کی برسی پر آئی ۱۰ دن بعد وہ آگ کی لپیٹ میں آگئی اور ۲دن بعد مرگئی ۔ فراق اپنی ماں دلاری دیوی سے بھی افسردہ تھے ناراضگی کی کیفیت تھی بدگماں تھے ۔ فراق نے اپنے والد کو خط لکھا اپنی ماں کا حال پوچھا "اتفاق سے جو آپ کی بیوی ہیں انکا کیا حال ہے" فراق کوگھر سے فارسی عربی سنسکرت ہندی کی تعلیم ملی بچپن ہی میں انہوں نے رامین طلسی داس کا مطالعہ کر لیا فراق بہت حساس اور بہت باذوق طبیعت کے مالک تھے حسن پرستی ان کی فطرت کا حصہ تھے بد صورتی ان کیلئے نا قابلِ بر داشت تھی یہی وجہ ہے کہ اپنی ماں سے ناراض تھے کہ شادی کے حوالے سے ان کی ماں کا انتخاب درست نہیں تھا۔ ماں سے بدگمانی کی یہی وجہ تھی ان پڑھ اور کم صورت بیوی ان کی زندگی کا روگ بن گئی اور ان کی ازدواجی زندگی ناکام رہی۔ابتدائی تعلیم ماڈل سکول اور مشن سکول گورکھپور سے حاصل کی فراق کو اردودوستی کی وجہ سے بہت تکلیفیں اٹھانا پڑی۔الٰہ آباد یونیورسٹی میں ترقّی نہ ہو سکی۔۱۹۱۳ء ؁ میں جبلی ہائی سکول گورکھپورسے میٹرک کیا میور کالج سنٹرل الہ آباد میں داخلہ لیا ایف اے کی تعلیم کے دوران میں ہی شادی ہو گئی اور ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا۔ ۱۹۱۵ء ؁ میں فرسٹ ڈویژن میں ایف اے پاس کیا اور صوبے بھر میں ساتویں پوزیشن حاصل کی اسی زمانے میں سیا ست میں بھر پور دلچسپی لی ۱۹۱۶ء ؁ میں کانگریس کے تاریخی اجلاس میں شرکت کی مزید ایک تعلیمی سال ضائع ہو گیا حسرت موہانی بھی ایک سرگرم تحریک آزادی کے رکن تھے ۱۹۱۸ء ؁ میں والد کا انتقال دمے کے مرض سے ہوگیا ۔ ۱۹۱۸ء ؁ میں الہ آباد یونیورسٹی سے بی اے کاامتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا اور صوبے میں چوتھی پوزیشن حاصل کی۔
۱۹۱۹ء ؁ میں پی سی ایس کا امتحان پاس کیا اور ڈپٹی کلکٹر بن گئے۔ ۱۹۲۰ء ؁۔۱۹۲۱ء ؁میں استعفیٰ دے دیا یہ انگریزی حکومت کی نوکری تھی اورفراق آزادی کی تحریک کا پروانہ تھا جواہر لا ل نہرو کے خاندان سے قریبی تعلق تھا فراق نے ۱۹۱۶ء ؁میں شاعری کا آغاز کیا اور باقاعدہ شاعری ۱۹۱۹ء ؁ میں کی امیر مینائی کے مشہور شاگرد وسیم خیرآبادی کے شاگرد ہو گئے اور ان سے شاعری کی اصلاح لیتے رہے انگریزی حکومت اور انگریزوں کے سخت خلاف تھے ۱۹۲۰ء ؁ میں مولانا حسرت موہانی اور پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ فراق بھی گرفتار ہوئے ڈیڑھ سال قید بامشقت کی سزا پائی اسی اسیر ی کے زمانے میں بھائی کاانتقال ہو گیا اور اس کی ارتھی کہ کندھا بھی نہ دے سکے گھر کے حالات بھی نا گفتہ بہ تھے ۔
گورکھپور سے الہ آباد چلے آئے ۱۹۲۳ء ؁ سے ۱۹۲۷ء ؁ تک فراق کانگریس کے انڈر سیکریٹری رہے ۱۹۲۶ء ؁ میں غزل کے ساتھ نظم بھی کہنے لگے ان دنوں مجنوں گورکھپوری اور حسرت موہانی جیسے بڑے لوگوں سے بہت ملاقیتیں رہیں۔مجنوں گورکھپوری الہ آبادکالج میں پڑھاتے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب فراق کو ایک عشق ہوا
عملی سیاست میں دلچسپی:گھریلو حالات کی وجہ سے تعلیمی تعطل آگیا ۱۹۱۸ء ؁ کے بعد ۱۹۳۰ء ؁ میں الہ آباد یونیورسٹی سے فراق نے انگریزی میں ایم اے کیا اور اوّل پوزیشن حاصل کی انگریزی کے شعبے کے صدر پروفیسر امر ناتھ جھا سے فراق کی دوستی تھی سو فراق الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں لیکچرر ہو گئے۔ فراق اس پائے کے آدمی تھے کہ وہ خود اپنی قابلیت کی وجہ سے لیکچرر ہوئے نہ کی امرناتھ جھا کی دوستی کی وجہ سے پروفیسر امر ناتھ نے راستہ ضرور دکھایا ہو گا۔فراق کو اردو دوستی اور مسلمانوں سے تعلقات ، مسلم علماء سے تعلیم ،کائستھ خاندان وغیرہ کی وجہ سے بہت قیمت کوچکانا پڑی ترقی کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے یہ سب بنیادی طور پر تعصب تھا۔۱۹۳۶ء ؁ میں ترقی پسند ی کا بھی ان پر اثر ہوا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
پروفیسر احمد علی کے ذریعے سے ان کی ملاقات سجاد ظہیر سے ہوئی ترقی پسند تحریک سے بھی وابستہ ہوئے اور کئی کانفرنسوں میں مقالہ بھی پڑا۔فراق کی شاعری میں اشتراکیت پسندی نہیں ہے ان کے تحفظات اور اختلافات بھی تھے اشتراکیت کے حوالے سے اشتراکی ماضی کے خلاف ہیں ماضی کی تفہیم نہیں کرتے دسمبر ۱۱۹۱۴ء ؁ میں فراق کوعشق ہوا چند ہفتوں کے بعد ختم ہو گیا البتہ اس کا اثر ان کی ذات پراور اعصاب پر ۱۲ سال تک رہا۱۹۲۹ء ؁ میں سناتم دھرم کالج میں پڑھاتے رہے دوسرا عشق ۱۹۳۴ء ؁ میں ہوا یہ ایک زبردست عشق تھا ۱۹۳۴ء ؁ سے۱۹۳۶ء ؁ تک یہ عشق چلا۔یہ عشق موتی لا نہرو کی بیٹی اور جواہرلال نہرو کی بہن کرشنا سے تھا جس کے بارے میں فراق نے کہا تھا کہ اگر میں ذرا سا بھی اس کا اشارہ کروں تو فوراً سے پہلے ہم دونوں کو قتل کردیا جائے گا۔۱۹۶۶ء ؁ تک وہ الہ آباد یونیورسٹی سے وابستہ رہے اس کے بعد ریٹائرڈ ہو گئے لیکن اپنی وفات تک یونیورسٹی میں قیام کیا آخری عمر میں بیمار ہو گئے گنٹھیا کا مرض تھاچلنے پھرنے سے عاری ہو گئے اوپر سے بڑھاپا ،دوستوں سے ملنا جلنا کم ہو گیا قیدِِِِ تنہائی کاٹتے رہے۔۲۴سمبر ۱۹۸۱ء ؁ میں دہلی میں زندگی کا آخری جلسہ ہواجس میں انہیں غالب ایوارڈ دیا گیا اندرا گاندھی نے انہیں مالا پہنائی فراق اپنی نا قدر شناسی پر اس قدر مایوس تھے اور غمزدہ تھے کہ انہوں نے کہا کہ یہ مالا میری سمادھی پر چڑھائی جا رہی ہے اس میں احساسِ رخصتی بھی شامل تھا ۷جنوری ۱۹۸۲ء ؁ کو دہلی ہسپتال میں داخل ہوئے اندراگاندھی عیادت کیلئے آئی ۔ ۲۳فروری ۱۹۸۲ء ؁ کو اسلام اباد میں جوش ملیح آبادی کا انتقال ہو گیا وہ فراق کے قریبی دوست تھے فراق نے ان کی وفات پر کہا کہ ہم جی مر گئے ۔ ہسپتال میں انہیں کوئی پوچھنے نہ آیا بیٹیوں کی شادی کے بعد بیوی سے بھی علیحدگی اختیار کر لی بیٹیا ں بھی پوچھنے نہ ائیں فراق کے عزیزوں نے فراق کو پہلی بار ر وتے دیکھا ابے مان سنگھ جو فراق کا بھانجا تھا وہ ہسپتال میں فراق کے پاس آتا جاتا تھا۔ فراق نے دو وصیتیں کی تھیں کہ میں مر جاؤں تو الہ اباد میں میری چتا کو آگ لگانا اور میری لاش پر میری بیوی اور بیٹیوں کو مگرمچھ کے آنسو نہ بہانے دینا فراق کی صرف پہلی وصیت پر عمل کیا گیا۔
۳ مارچ ۱۹۸۲ء ؁ بروز بدھ دہلی میں گرگ کے گھر میں تھے لان میں بیٹھے تھے وقت ۱۲۳۰ دن کا تھا دل میں تکلیف اٹھی اور دن ایک بج کر پندرہ منٹ پر فراق انتقال کر گئے مرتے وقت ان کا اپنا انکے پاس کوئی نہیں تھا
سفر ہے آخرت کا میرے ذمے کچھ نہ رہ جائے بتا اے منزل ہستی تیرا کتنا نکلتا ہے
لاش دہلی سے الہ آباد لائی گئی حکومت کی بے حسی کی انتہا تھی ٹرین کے ایک ڈبے میں جس میں اور سامان بھی تھا اس میں لاش لائی گئی صرف ابے مان سنگھ ساتھ تھا
مشتاق نقوی لکھتے ہیں"کافی تگ و دو کے بعد لاش کو بریکدان میں رکھا گیا اتنی مہربانی ضرور کئی گئی کہ اس میں اور کوئی سامان نہیں رکھا گیا لاش بریکدان رکھنے کیلئے دلی کے شہر میں جسے اپنی اردو اور اردو نوازی پر ناز ہے چار آدمی نہیں تھے جو اس محسن اردو کی لاش اٹھا کر گاڑی میں رکھ سکیں فراق صاحب کیلئے یہ خدمت قلیوں نے انجام دی" 

فراق کے شعری مجموعے
فراق کے ۱۷ شعری مجموعے شائع ہوئے اور ۵ انتخابات کلام اور کلیات اس کے علاوہ ہیں تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ شعلہِ ساز ۱۹۴۵ء ؁
۲۔ روحِ کائنات س ن
۳۔ مشعل ۱۹۴۶ء ؁
۴۔ روح س ن
۵۔ رمزوکنایات ۱۹۴۷ء ؁
۶۔ گلِ نغمہ ۱۹۵۹ء ؁
۷۔شبنمستان ۱۹۶۵ء ؁
۸۔ غزلستان ۱۹۶۵ء ؁
۹۔نغمہ نما س ن
۱۰۔ ہزارداستان س ن
۱۱۔ شعرستان ۱۹۶۶ء ؁
۱۲۔دھرتی کی کروٹ ۱۹۶۶ء ؁
۱۳۔ چراغگاں ۱۹۶۶ء ؁
۱۴۔ گل ہائے پریشان س ن
۱۵۔ گل بانگ ۱۹۶۷ء ؁
۱۶۔ پچھلی رات ۱۹۶۹ء ؁
۱۷۔ بزم زندگی رنگ شاعری (ہندی)۱۹۷۰ء ؁
انتخابِ کلام
۱۔ فراق گورکھپوری (منتخب کلام) ۱۹۵۹ء ؁
۲۔ غزل (انتخاب از ناصر کاظمی) ۱۹۷۰ء ؁
۳۔ انتخابِ کلام فراق گورکھپوری مرتبہ ڈاکٹر افغان اللہ خان۱۹۸۳ء ؁
۴۔ انتخابِ فراق انجمن ترقی اردو دہلی ۱۹۸۶ء ؁
۵۔ 
کلیات فراق گورکھپوری مرتبہ عباس تابش
اس کے علاوہ نظموں کے کئی مجموعے جو غیر مطبوعہ ہیں تنقید کی کئی کتابیں بھی لکھیں ۷کتابیں شائع بھی ہیں۔ انگریزی کتابیں بھی لکھیں اور ترجمے بھی کئے ۱۰۰ کے قریب تنقیدی مضامین اور افسانہ نگاری میں بھی چار پانچ افسانے میسر ہیں۔

۲۔ ناصر کاظمی(۸دسمبر۱۹۲۵ء ؁۔۲مارچ ۱۹۷۲ء ؁)
اصل نام سید ناصر رضاتھا اور قلمی نام ناصر کاظمی تھا۔ اپنی ڈائری میں انہوں نے اپنی تاریخ پیدائش ۸دسمبر ۱۹۲۵ء ؁ ہندوستان کے شہر انبالہ کی لکھی ہے۔
انبالہ ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے
جدید تحقیق کے مطابق ڈاکٹر حسن رضوی نے ناصر کاظمی پر پی ایچ ڈی کرتے ہوئے ان کی تاریخ پیدائش یکم دسمبر ۱۹۲۳ء ؁ بتائی ہے۔ناصر کی پیدائش اس دور میں ہوئی جو بیسوی صدی کا دور تھا۔ہر چیز تیزی سے بدل رہی تھی ،سیاست،معیشت،معاشرت،نظریات،رویے،اقدار،کلچر،اور ان سب کا براہ راست ادب پر بھی پڑ رہا تھا۔ناصر بھی اسی صدی کی پیداور ہیں۔ناصر نے ہجرت کو ایک ادبی تجربہ بنانے کی کوشش کی ہے یہ ماحول نفسا نفسی، انتشار اور قتل و غارت کا تھا۔اس دور کے اکثرشعراء اپنے اپنے رنگ میں ان تجربوں کا ذکر کر رہے تھے۔ناصر کا ظمی کے ہاں بھی یہ صورتحال موجود ہے ان کے ہاں اجتماعی حوادث کا واضع عکس نظر آتا ہے۔
ایک طرف جھوم کر بہار آئی ایک طرف آشیاں جلائے گئے
خار وخص کی طرح بہائے گئے وقت کے ساتھ ہم بھی ناصر
ناصر کے ہاں براہ راست بھی یہ رنگ موجود ہیں لیکن غزل کا فن دراصل اشاروں اور رمزوایمائیت کا ہے۔غزل کے اشارے صدیوں سے چلے آرہے ہیں۔ایک بڑا شاعر ان علامتوں اور استعاروں کو اپنے زمانے کے تجربوں کے بیان کیلئے نئی معنونیت کے ساتھ استعمال کرتاہے یہ ہر شاعر کے بس کی بات نہیں اس کیلئے اعلی سطع کے تخلیقی تخیل اور فنی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً صحرا کی علامت یا استعارہ ہماری شاعری میں صدیوں سے استعمال ہو تا آرہا ہے مگر اقبال کی شاعری میں ان کے اپنے فلسفے کے اعتبار سے صحرا کو جس طرح اسلامی تہذیب کی علامت بنا دیا گیا ہے وہ ان کے تخلیقی شعور کا کمال ہے اسی طرح کفس دار ،صلیب نئے استعارے نہیں ہیں لیکن فیض احمد فیض کی شاعری میںیہ الفاظ ان کے اپنے سیاسی نظریے کے حوالے سے ایک نئی معنونیت اختیار کر گئے ہیں۔اسی طرح ناصر کاظمی نے اپنے زمانے کے آشوب کو بیان کرنے کیلئے کچھ مخصوص استعاروں کو نئے معانی دئیے ۔جو ناصر کاظمی کی اپنی پہلی کتاب "برگ نے (۱۹۵۲ء ؁)"کی غزلوں کے کلیدی الفاظ ہیں جن سے ان کی شاعری کو سمجھا جا سکتاہے۔مثلاً رفتگاں، ناصر نے اسی پرانے لفظ کے ساتھ نئی معنویت پیدا کی ہے یعنی وہ لوگ جو فسادات میں جدا ہوگئے تو یہ لفظ تہذیبی معنونیت اختیار کر گیا۔
رفتگاں کا نشان نہیں ملتا اُگ رہی ہے زمیں پے گھاس
مل ہی جائے گا رفتگاں کا سراغ اور پھر کچھ دن آکے منزل پے آنکھ بھر آئی سب مزا رفتگاں نے چھین لیا۔
رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیاکچھ لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
جنگل اور بستی کا لفظ ناصر کے ہاں نئی معنونیت لے کر ابھرا ہے۔
جنگل میں ہوئی ہے شام ہم کو بستی سے چلے تھے منہ اندھیرے دیتے ہیں سراغ فصل گل کا شاخوں پے جلے ہوئے بسیرے۔
قافلہ ،کارواں ،آشیاں وغیرہ کے الفاظ بھی ان کے ہاں ایک نئی معنونیت پیش کرتے ہیں۔یہ دور میر کے دور کے مماثل ہوگیا اس عہد میں بھی دلی اجڑ رہی تھی۔عمارتیں گر رہی تھیں چراغ بجھ رہے تھے بستیا ں لٹ رہی تھیں۔ناصر کاظمی کے ہاں اسی لئے میر کے ساتھ گہری وابستگی کا اظہار ملتا ہے۔اُس دور کے غزل گوشعراء میں شہرت بخاری،خلیل الرحمن اعظمی ،باقر مہدی،ابن انشاء اور مختار صدیقی وغیرہ کے ہاں میر کے اثرات غالب ہیں۔نقادوں کا یہ فیصلہ ہے کہ ناصر کاظمی اپنے ہم عصروں میں ایسے شاعر ہیں جنہوں نے میر کی شاعری کے اثرات کو تخلیقی طور پر سب سے زیادہ جذب کیا وہ صرف میر کے مقلد نہیں بنے بلکہ میر کے اثرات کے تحت انہوں نے ایک نیا لہجہ تشکیل دیا۔
گلی گلی آباد تھی جن سے کہاں گئے وہ لوگ اب کے دلی ایسی اجڑی گھر گھر پھیلا سوگ
میر کی طرح ناصر کے ہاں بھی ذاتی اور اجتماعی غم ایک ہو گئے ہیں۔ناصر کی اداسی صرف ذاتی نہیں ہے بلکہ تہذیبی اداسی ہے اور اس کا تعلق ہمارے اجتماعی حادثوں سے ہے۔اداسی کے ان اسباب میں ہجرت اور تقسیمِ ہندوستان کے تلخ اثرات شامل ہیں آگے چل کر المیہ مشرقی پاکستان کے دردناک اثرات ناصر کی شخصیت اور شاعری پر مرتب ہوئے ۔
وہ ساحلوں پے گانے والے کیا ہوئے وہ کشتیا ں چلانے والے کیا ہوئے
عمارتیں تو جل کے راکھ ہو گئیں عمارت بنانے ولے کیا ہوئے
اس طرح کی ساری سیاسی صورتحال اور عہد کا آشوب ناصر کے ہاں واضع دکھائی دیتا ہے۔ناصر نے اداسی کو ادبی رویہ بنا لیا ہے۔
ناصر ملا تھا رات ہم کو تنہا اور اداس وہی پرانی باتیں اس کی وہی پرانا روگ
قیام پاکستان کے بعد لوٹ کھسوٹ، جعلی الاٹ منٹس،ناجائز پرمٹ، رشوت ستانی وغیرہ کی جو دوڑ شروع ہوئی تو ناصر کی شاعری نے معاشرے کے ان منفی رویوں سے خود کو بچانے کی کوشش کی۔یہ منظر بڑاگھناؤنا اور بھیانک ہے اس کا ایک ثبوت قدرت اللہ شہاب کی سوانح عمری شہاب نامہ میں ملتی ہے۔اسی طرح اس مکروہ صورتحال کی عکاسی مشتاق احمد یوسفی کی شاہ کار کتاب آب گم میں بھی ملتی ہے۔ناصر کی شاعری تہذیب کا نوحہ ہے تاہم ان کی اداسی تخلیقی تجربہ ہے اور ان کی تنہائی کے ساتھ ایک رومانوی تاثر بھی ملتاہے۔
ہمارے گھر کی دیواروں پے اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔
لیکن ناصر کاظمی کسی ایک دائرے تک محدودنہیں رہ گئے ان کے ہاں جدید غزل جدید موضوعات،نفسیاتی مباحث، حسن و عشق کی واردات اور کیفیات قیام پاکستان کے بعد کی سیاسی صورتحال ہجرت کے تجربات ،ذاتی اور اجتماعی اداسی اور تنہائی عہد کا آشوب ،اقدار کا زوال،بچھڑے ہوؤں کی جستجو اور اس کے ساتھ ساتھ ایک امید بھرا لہجہ۔
غم نہ کروقت اچھا بھی آئے گا ناصر زندگی پڑی ہے ابھی
فنی حوالے سے ناصر کاظمی کے ہاں چھوٹی بحروں کا استعمال بہت شاندار ہے اس کے ساتھ ساتھ ناصر کے ہاں تمثال کاری (امیجری) کا فن اپنے کمال پر دکھائی دیتا ہے وہ چلتی پھرتی تصویریں بنادیتے ہیں۔شاعرانہ تصویروں کے ذریعے موضوع میں جان پڑجاتی ہے اور بات کی تفہیم میں آسانی پیداہوجاتی ہے۔
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے پھر پتوں کی پازیب چلی تم یاد آئے
پھر کوابولا گھر کے سونے آنگن میں رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے
یاد کی سیڑھیوں پے پچھلے پہر کوئی چپکے سے پاؤں دھرتا ہے ہمارے گھر کی دیواروں پے اداسی بال کھولے سورہی ہے
ناصر مجرد چیزوں کو مجسم بنانے کا فن جانتے ہیں ناصر کے ہاں فطرت کے عناصر بھی شدت سے سامنے آتے ہیں۔ناصر کے ہاں فنی طور پر ایک اور پہلو بھی بہت نمایاں ہے اور وہ ہے کہانی کا رنگ داستانوی اندازجو ناصر کی تیسری کتاب "بارش"میں کھل کر سامنے آیا ہے۔
آج کی رات نہ سونا یارو آج ہم ساتواں در کھولیں گے
میں جب اس کے گھر آیا تھا تو وہ کہیں باہر گیا ہوا تھا اس کے گھر کے دروازے پرسورج ننگے پاؤں کھڑا تھا۔
چاند ابھی تھک کر سویا تھا تاروں کا جنگل جلتا تھا پیاسی کونجوں کے جنگل میں پانی پینے اترا تھا
کتنا چپ چپ کتنا گم صم وہ پانی باتیں کرتا تھا
ناصر ہر بات کو نئے طریقے سے پیش کرتے ہیں۔مختلف صنعتوں کی استعمال ناصر کے ہاں خوبصورتی سے ہوا ہے۔
یوں تیرے حسن کی تصویرغزل میں آئے جیسے بلقیس سلیمان کے دل میں آئے
ناصر کے ہاں ایک اور فنی پہلو ایسا ہے جو اردو شاعری میں اپنی مثال آپ ہے وہ سہلِ ممتنع ہے ناصر نے سادگی سے شعر کہے ہیں مگر رس موجود رہا لوگوں نے بہت کوشش کی مگر وہ بے رس ہو گئے مثلاً
نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاں
مجموعی طور پر کہا جاسکتاہے کہ ناصر کی غزل جدید طرزِ احساس کی طرف لاتی ہے۔لیکن روایت سے منقطع نہیں کرتی ان کی شاعری میں اجتماعی حوادث اور ذاتی دکھوں کا احساس بھی ہے اور فطرت کے حسن کی طرف تو جہ بھی ہے۔ان کی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے یہ سب موضوعات لفظ شناسی کی بصیرت اور موسیقی کے شعور کے بلند بیان کئے ہیں ان کی غزل میں بڑے نظریات یا فلسفے نہیں ہیں لیکن وہ قاری کو سوچنے پر مجبوربہت کرتے ہیں۔ناصر نے جب یہ کہا تھا"ہر دور کی غزل میں میرا نشان ملے گا"تو یہ غلط نہیں کہا تھاکیونکہ ان کی غزل نے اردو غزل کو نئی کیفیتں بخشی ہیں۔کہتے ہیں
غزل قافیہ پیمائی ہے ناصر یہ قافیہ پیمائی کوئی کر کے تو دیکھے 
منیر نیازی(۱۹اپریل۱۹۲۸ء ؁۔۲۶دسمبر۲۰۰۶ء ؁)
۱۹اپریل ۱۹۲۸ء ؁ کو خانپور بھارت میں پیدا ہوئے اور ۲۶دسمبر ۲۰۰۶ء ؁ کو لاہور میں وفات پائی۔ناصر اور فیض کے بعد منیر نیازی ایک اہم شاعر کی آواز میں ابھرے۔ منیرنے غزل اور نظم میں بیک وقت شہرت حاصل کی۔"منیر نیازی شخصیت اور فن،امجد طفیل"اور منیر نیازی پر پی ایچ ڈی کاکرنے کا اعزاز ڈاکٹر سمیرا اعجاز کو کو حاصل ہے ان کا مقالہ "منیر نیازی شخص اور شاعر"کے نام سے ۲۰۱۴ء ؁ میں شائع ہوا۔منیر نیازی کے شعری مجموعے درج ذیل ہیں۔
۱۔تیز ہوا اور تنہا پھول۔۱۹۵۹ء ؁ ۲۔ جنگل میں دھنک۔۱۹۰۶ء ؁ ۳۔ دشمنوں کے درمیان شام۔۱۹۶۴ء ؁
۴۔ماہِ منیر۔۱۹۴۷ء ؁ ۵۔چھ رنگین دروازے۔۱۹۷۹ء ؁ ۶۔ آغازِ زمستان دوبارہ۔۱۹۸۰ء ؁
۷۔ساعت سیار۔۱۹۸۳ء ؁ ۸۔پہلی بات ہی آخری۔۱۹۸۶ء ؁ ۹۔ایک دعا جو میں بھول گیا۔۱۹۸۹ء ؁
۱۰۔سفید دن کی ہوا اور سیاہ شب کا سمندر۔۹۶۔۱۹۹۴ء ؁ ۱۱۔ایک مسلسل۔۲۰۰۳ء ؁ ۱۲۔کلیات منیر ۱۳۔انتخاب منیر
منیر کی غزل ناصر کی غزل کے بعد کچھ نئی معنونیت لے کر ابھری اور ہجرت کے اثرات منیر کے ہاں بھی واضع ہیں تاہم ایک چیز ان کے ہاں منفرد تخلیق ہوئی اور وہ ہے منیر نیازی کی فضابندی۔تمثال کاری کا حسن بھی منیرنیازی کے ہاں ناصر کی طرح بہت نمایاں ہے منیر نیازی ایک بڑی واردات کوبہت تھوڑے لفظوں میں ایک تصویر کی طرح سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔اردو شاعری میں تمثال نگاری کی کئی شکلیں ہیں لیکن جدید غزل میں ناصر،شکیب جلالی اور منیر نیازی کے ہاں یہ رجحان بہت زیادہ ہے۔
روش سے ہٹ کے بنے ایک مکانِ نو کے قریب وہ خوں تھا کس کا وہ پھولوں کا ہارکس کا تھا۔
گھر میں کوئی مکین نہیں لیکن سیڑھیوں پر گلاب سا کیا ہے گھٹا دیکھ کے خوش ہوئیں لڑکیاں چھنوں پر کھلے برسات کے 
منیر نیازی نے اردو غزل میں کچھ نئی جہتیں نمایاں کیں۔
احمد فراز
سید احمد شاہ نام ۱۴جنوری ۱۹۳۱ء ؁ کو نوشہرہ کے پی کے میں پیداہوئے۔پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اردو اور ایم اے فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ترقی پسند افکار اور رومانویت کے امتزاج کے حوالے سے احمد فراز ایک نمایاں شاعرکے طور پر سامنے آئے ان کی کتابیں ایک زمانے تک ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوتی رہی ہیں۔کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔
۱۔تنہا تنہا ۲۔درد آشوب ۳۔نایات ۴۔جاناں جاناں ۵۔شب خون
۶۔میرے خواب ریزہ ریزہ ۷۔بے آواز گلی کوچوں میں ۸۔نابینا شہر میں آئینہ 
۹۔سب آوازیں میر ی ہیں ۱۰۔پس انداز موسم
خواب گل پریشان ہیں سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

Comments

Popular posts from this blog

منٹو کی افسانہ نگاری میں عنوانات کی اہمیت

افسانہ کے فن میں عنوانات کی اہمیت