تحقیق


بنیادی ماخذ
بنیادی ماخذات مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔ذاتی کاغذات
ذاتی کاغذات میں رقعے،ڈائریاں،بیاض،دستخط شدہ دستاویزات اور یادداشتیں وغیرہ شامل ہیں۔
۲۔روزنامچے
اس میں ڈائریاں وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔
۳۔سرکاری مطبوعات
اکادمی ادبیادیات اور سرکاری اشاعت وغیرہ 
۴۔انسائیکلوپیڈیا
۵۔سوانح۔آپ بیتی
۶۔خطوط
نجی خطوط جو آپ نے کسی کے نام لکھے ہوں یا کسی نے آپکے نام لکھے ہوں
۷۔وصیت نامے
تحریری اور دستخط شدہ وصیت نامہ
۸۔وڈیوفلمیں
وڈیو اور آڈیو
۹۔چشم دید گواہ
حدیث متواتر
ایسی حدیث جو مسند اور کثرت سے موجود ہو
احاد
جس حدیث کی روایت کم موجود ہو۔
حدیث احاد کی قسمیں
احاد مشہور: جس کے تین راوی موجود ہوں
احاد عزیر: جس کے ہر زمانے میں دو راوی موجود ہیں
احاد غریب:جس کے ہر زمانے میں ایک راوی موجود رہا ہو۔



راوی کی خصوصیات
ایک بات کو دوسرے تک پہنچانے والے کو راوی کہتے ہیں راوی سچا ہو گا تو حدیث بھی مستند ہو گی۔۲۔راوی کا خاندان دیکھا جاتاہے ۳۔پیشہ دیکھا جاتا ہے۔۴۔متقی اور پرہیزگار ہو۔۵۔نماز کی ادائیگی کے معمولات اعلی ہوں۔۶۔صوم و صلواۃ کا پابند ہو۔۷۔ماں باپ اور رشتہ داروں کے ساتھ رویہ اچھا ہو۔۸۔دیکھا جاتا ہے کہ اہالیان کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے۔۹۔پڑوسیوں کے ساتھ سلوک کیسا ہے۔۱۰۔بحیثیت معلم اور متعلم اپنے فرائض کیسے پورے کرتاہے۔۱۱۔کیا عالم فاضل ہے۔۱۲۔اسکی صحبت کیسی ہے۱۳۔کھانے کے معمولات کیسے ہیں۔۱۴۔لین دین کیسا ہے۔۱۵۔عام زندگی میں عام انسانوں کے اور جانوروں کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے۔۱۶۔ جھوٹ تو نہیں بولتا۔
درایت
وہ تنقیدی شعور جس سے روایت کو پرکھا جاتاہے یا جانچا جاتاہے متن کی جانچ پڑتال کرنا اور یہ سب سکہ لوگ ہی کر سکتے ہیں سکہ لوگ اہل علم ہوتے ہیں ان کو سب علوم پر دسترس ہوتی ہے۔روایت کو تاریخ تنقید اور درایت کو اصولِ تنقید کہتے ہیں۔
خارجی شواہد اور داخلی شواہد
خارجی شواہد:تمام بنیادی اور ثانوی ماخذ خارجی شواہد کہلاتے ہیں۔
داخلی شواہد: درایت کو کہتے ہیں خوبیا ں خامیاں ،ذاتی بصیرت،عقل و منطق، متن شناسی، مشکوک شبہات پیداہونا۔
خاکہ((SYNOPSIS
خاکہ تحقیقی عمارت کا نقشہ ہوتاہے۔کام کی میعاد اگر ۶ماہ ہو تو اسے ۶ماہ کے اندر مکمل کرنا ہوتا ہے اس لیئے موضوع ایسا منتخب کریں جو ۶ ماہ میں مکمل ہو جائے خاکہ سازی دراصل منصوبہ سازی ہوتی ہے ذہنی خیال کی عملی شکل کا نام نقشہ یا خاکہ ہے ذہنی خیال کو جب ہم کاغذ پر منتقل کرتے ہیں تو یہ خاکہ ہی ہوتاہے۔ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں"بے ترتیب مواد کی تصوراتی ترتیب لگانا ور پھر اس کو عملی شکل دینا خاکہ کہلاتاہے"
خاکہ بنانے سے پہلے آپ کے پاس مواد کتنا ہے اور کتنا چاہئے جس پر آپ کام کرنے جا رہے ہیں اس کا پس منظری مطالعہ کیا ہونا چاہیے۔آپ کا ذوق شوق بھی ہونا ضروری ہے۔
خاکے کے اجزاء
۱۔موضوع کا تعارف ۲۔موضوع کی اہمیت ۳۔موضوع کا جواز ۴۔مقاصد تحقیق ۵۔طریق تحقیق
۶۔صنعتی تحقیق ۷۔غیر صنعتی تحقیق ۸۔حدود تحقیق ۹۔میعاد تحقیق ۱۰۔اخراجات کا تخمینہ
مفروضہ
دنیا کے تسلیم شدہ حقائق کو مفروضہ کہتے ہیں وہ عالمگیرسچائیاں جن کو دنیاتسلیم لیتی ہے اور ان کے مقام و مرتبے کا تعین کرلیا جاتا ہے
فرضیہ
وہ چیز جسے ہم تسلیم کرانا چاہتے ہیں یا مفروضہ بنانا چاہتے ہیں وہ فرضیہ کہلاتی ہے۔
پس منظری مطالعہ
اگر ناول پر کام یا تحقیق کرنی ہو تو ناول کی روایت کا پتہ ہونا چاہیے اسکی صنف کا پتہ ہونا چاہیے اسکی بنیادی فنی و تکنیکی چیزوں کا مطالعہ ہونا چاہیے۔




متوقع نتائج اور سفارشات
تحقیق کے بعد قاری کو نئے پہلوؤں سامنے آئیں گے پھر اپنی سفارشات دیں کہ اس کام کو ایسے کر لیا جائے توزیادہ بہتر ہو گا اگر کوئی مقالہ نگار یا قاری ایسا کرے تو زیادو فائدہ ہوگا۔
ابواب بندی کرنا(کام کو آسان کرنے کیلئے)
کام کو تقسیم کرنے کیلئے ابواب بندی کی جاتی ہے مثلاً "پہلا باب۔تعارف " ہے تو مجھے اس کی سوانح کے بارے میں پتہ ہونا چاہئے تحقیقی اور تنقیدی جائزہ لوں گا توضیحی ابواب کے ذیل میں یوں ہوں گے مثلاًسوانحی خاکہ،جون ایلیا کی شاعری،جو ایلیا کی غزل،جون ایلیا کی نظم وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔
ضمیمہ
ضمیمہ مقالے کا وہ اضافی حصہ ہوتا ہے جو متن سے باہر ہوتے ہوئے بھی متن کا حصہ بنایا جاتاہے کیونکہ اگر اس کو مقالے کے متن میں شامل کر لیا جائے تو اس سے مقالے کا حسن خراب ہو جاتا ہے۔یہ اضافی معلومات جو متن کا حصہ تو نہیں ہوتی مگر اہم جزو ضرور تصور کی جاتی ہیں۔یہ اضافی معلومات متن کے حق میں دلیل اورمزید توثیق و تائید کا باعث اور جس سے آپ کے متن کو وقار ملتاہے اسے ہم ضمیمہ کہتے ہیں۔ضمیمہ ہمیشہ متن کے اختتام پر دیا جاتاہے ضمیمہ اگر ایک سے زیادہ ہو تو ان کے نمبر ترتیب وار کے حساب سے دیئے جائیں گے مثلاً تصاویر، نقشہ جات،اسناد فوٹو کاپیز، خطوط،دست تحریریں یا آڈیو وڈیو سی ڈیز وغیرہ۔ضمیمہ اگراہم ہے تو شامل کریں ورنہ رہنے دیں ضمیمہ مقالے کے آخر میں کتابیات سے پہلے بھی اور کتابیات کے بعد میں بھی رکھا جا سکتاہے۔
حوالہ
اقتباس کے ماخذ کی نشاندہی کیلئے جو چیز استعمال کی جاتی ہے اسے حوالہ کہتے ہیں۔
حوالہ دینے کا طریقہ (شکاگو مینوئل آف سٹائل کا طریقہ)
حوالے بہت سی چیزوں سے دیئے جا سکتے ہیں مگر ان میں ضروری چیز ہے انکی ترتیب جو اس طرح سے ہو گی۔
۱۔کتابیں 
مصنف کا نام۔کتاب کا نام۔شہر کا نام جہاں سے اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے۔پبلشر کا نام۔سن اشاعت۔صفحہ نمبر
دوسری دفعہ اسی کتاب کا حوالہ دینا: مصنف کانام۔کتاب کا نام۔صفحہ نمبر
بعض دفعہ ایک سے زیادہ مصنف ہوں تو: مصنفین کے نام۔کتاب کا نام۔شہر کا نام جہاں سے اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے۔پبلشر کا نام۔سن اشاعت۔صفحہ نمبر
۲۔ترجمہ
مترجم کا نام۔مترجم(لفظ لکھنا ہے)۔شہر کا نام جہاں سے اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے۔پبلشر کا نام۔سن اشاعت۔صفحہ نمبر
دوسری دفعہ ا اسی کتاب کا حوالہ دینا: مترجم کانام۔ کتاب کانام۔صفحہ نمبر
۳۔تدوین/مدوّن
جس کی کتاب ہے ۔کتاب کانام۔مرتبہ یا تدوین۔شہر کا نام جہاں سے اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے۔پبلشر یا ادارہ کا نام۔سن اشاعت۔صفحہ نمبر
دوسری دفعہ اسی کتاب کا حوالہ دینا: مصنف کانام۔کتاب کانام۔صفحہ نمبر
اگر کسی مرتبہ کتاب کے کسی با ب یا کسے حصے سے حوالہ دینا ہو تو: مرتبہ کانام۔باب کانام ۔کتاب کانام ۔شہر کا نام جہاں سے اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے۔پبلشر کا نام۔سن اشاعت۔صفحہ نمبر




۴۔کتاب میں شامل مضامین سے حوالہ دینا 
مضمون نگار کانام۔مضمون کانام۔مشمولہ(لفظ لکھنا ہے)۔مضامین کے مجموعے کانام۔جلد نمبر۔مرتبہ کانام۔شہر کا نام جہاں سے اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے۔پبلشر کا نام۔سن اشاعت ۔صفحہ نمبر
دوسری دفعہ ا اسی کتاب کا حوالہ دینا: مضمون نگار کانام۔مضمون کا نام۔صفحہ نمبر
۵۔رسائل
مضمون نگار کانام۔مضمون کا نام۔رسالے کانام۔شمارہ نمبر۔سن اشاعت۔صفحہ نمبر
دوسری دفعہ ا اسی کتاب کا حوالہ دینا: مضمون نگار کانام۔مضمون کا نام۔صفحہ نمبر
۶۔اخبارات
کسی کالم سے حوالہ دینا: کالم نگار کانام۔کالم کانام۔اخبار کانام۔اخبار کی تاریخ اشاعت۔صفحہ نمبر
دوسری بار حوالہ دینا: کالم نگارکانام۔کالم کا نام
۷۔انٹرنیٹ
کالم نگار کانام۔کالم کانام۔اخبار کانام۔اخبار کی تاریخ اشاعت۔ویب اڈریس
۸۔تبصرے
تبصرہ نگار کانام۔تبصرے کانام/عنوان۔تبصرہ از(لفظ لکھنا ہے)جس کتاب پر کیا گیا ہے۔رسالے کانام۔شمارہ نمبر۔دورانیہ (مثلاً جولائی تا دسمبر)۔سن اشاعت۔صفحہ نمبر
۹۔مقالہ جات
مقالہ نگار کانام۔مقالے کانام۔مقالہ برائے ایم فل،پی ایچ ڈی ، ایم اے ۔جامعہ کانام۔سن اشاعت ۔صفحہ نمبر
دوسری دفعہ: مقالہ نگار کانام۔مقالے کانام۔صفحہ نمبر
۱۰۔خط یا ای میل
خط لکھنے والے کانام۔خط بنام راقم۔تاریخ خط لکھنے کی
ای میل کرنے والے کانام۔ای میل بنام راقم۔تاریخ
حواشی
متن میں جب کسی چیز کی وضاحت دینی ہو تو متن کے نیچے اس کی وضاحت کر دی جاتی ہے اسے ہم حاشیہ کہتے ہیں۔اگر ایک سے زیادہ وضاحتیں ہو تو اسے ترتیب سے نیچے لکھا جاتا ہے اور اسے حواشی کہا جاتاہے۔حواشی نمبر متن کے اوپر جبکہ متن میں حوالے کا نمبر متن کے نیچے دیا جاتاہے۔
اشاریہ
جو اہم مقامات، اشخاص، کتب، رسائل اور ادارے وغیرہ متن میں آتے ہیں ان کیلئے ایک الگ حصہ بنا دیا جاتاہے اور ان کے نام اور صفحہ نمبر کتاب کے آخر میں ترتیب سے درج کئے جاتے ہیں۔
تدوین
اصل عبارت کو متن کہا جاتاہے جس متن پر آپ کام کر رہے ہیں۔تدوین سے مراد زیرِ تحقیق یا زیرِ اصلاح ایسی عبارت ہے جس کو کوئی محقق صحت کے ساتھ ترتیب دے تو وہ تدوین کہلائے گی۔



مدون کے اوصاف
۱۔کرداری یا اخلاقی اوصاف
۱۔حق گوئی۔۲۔بے تعصبی اور غیر جانبداری۔۳۔ہٹ دھرم اور ضدی نہ ہو۔۴۔کسی دنیاوی فائدے کا متلاشی نہ ہو۔۵۔تحقیق کی طرف رغبت اور ولولہ رکھتاہو۔۶۔مزاج میں ڈٹ کر محنت کا مادہ ہو۔۷۔مزاج میں سیمابیت ، بے صبیری اور عجلت نہ ہو۔۸۔محقق کے مزاج کی طرح اعتدال ہو۔۹۔غرورِ علم نہ ہو، منکسر المزاج ہو۔۱۰۔اخلاقی جرات کا مادہ ہو۔
۲۔ذہنی اوصاف
۱۱۔غیر مقلد مزاج ہو۔۱۲۔ضعیف الاعتقاد نہ ہو۔۱۳۔استفہامی مزاج ہویعنی مشکک ہو۔۱۴۔مزاج میں سائنسدان کی سی قطعیت ہو۔۱۵۔فکری وضاحت رکھتاہو۔۱۶۔حافظہ اچھا ہو۔
۳۔علمی اوصاف
۱۷۔نا معلوم کو معلوم کرنے کی کرید ہو۔۱۸۔اردو کے علاوہ دوسری زبانوں سے واقفیت ہو۔۱۹۔تاریخ کا شعور ہو تاکہ ماضی سے گہری واقفیت ہو۔۲۰۔بعض دوسرے علوم سے بھی آگاہ ہو۔۲۱۔محقق اور نقاد کی صفات سے بھی متصف ہو۔
قیاسی تحقیق
یہ تدوین کی ایک قسم ہے اس کا تعلق تحقیق سے نہیں بلکہ تدوین سے ہے جب ایک چیز نہیں ملتی تو پھر قیاس سے کام لیا جاتاہے۔کتاب یا مخطوطے کا کوئی حصہ پھٹا ہو یا جلا ہودیمک زدہ ہے مٹا ہوا ہو پڑھنے کے قابل نہ ہوتو اس صورت میں کتاب یا مخطوطے کے متاثرہ حصے کوکوئی مسند محقق یا مدون اپنے علمی قیاس کی بنیاد پر مکمل کرے گا سے اصطلاح میں قیاسی تحقیق کہا جائے گا۔حاشیے میں اس کی وضاحت کی جائے گی۔تدوین عام طور پر قلمی نسخوں یا مخطوطہ جات کی کی جاتی ہے اس میں صحت الفاظ ہے صحت انکار نہیں جوزمانی اعتبار سے تبدیل ہوتارہا ہے تو ایسی صورت میں جو نسخہ سب سے آخر میں نظر آئے اسے چن لیا جائے۔
اختلافِ نسخ
جب بہت سارے نسخے موجود ہوتو فیصلہ نہیں ہو پاتا کہ ان میں سے مستند نسخہ کون ساہے تو اسے اختلافِ نسخ کہتے ہیں۔سب سے قدیم نسخے کو پہلے دیکھیں گے پھرایک ایک نسخے کو دیکھیں گے جہاں اختلاف دیکھیں اسے آپ حاشیے میں بتائیں گے اس طرح آپ نسخے دیکھتے جائیں اور جس نسخے میں سب سے کم اختلاف ہو گا اسے ہم چن لیں گے ۔مدون کیلئے محقق ہونا ضروری ہے۔مدون محقق، شارح،مفسر،نقاد ہوتا ہے لیکن مورخ ہونا لازمی نہیں ہوتا مگر عہد کے تقاضوں سے پوری طرح واقف ہوناا ز بس ضروری ہے املاء اور الفاظ سے واقف ہونا چاہیے۔مدون ہر گز تحریف نہیں کرتاحتٰی کہ تصیح بھی نہیں کر سکتا مدون نیک نیتی کے تحت حذف کر سکتا ہے ایسی بات جس سے معاشرے میں انتشار اور بگاڑ کا اندیشہ ہو مدون تصیح، تحریف سے اتنا باخبر ہو کہ وہ ان کو پہچان سکے۔رموز و اوقاف اور اعراب یعنی گرامر سے بھی واقف ہو مدون وہ الفاظ لکھے گا جو مصنف کے قلم سے بعینی برآمد ہوئے ہوں۔
ذیل میں اردو تحقعق کے سلسلے میں چند اہم نام پیش کئے جاتے ہیں۔
۱۔پروفیسر حافظ محمود شیرانی ۲۔قاضی عبدالودود ۳۔مسعود حسن رضوی ۴۔مولوی عبدالحق
۵۔مولانا امتیاز علی عرفی ۶۔ڈاکٹر وحید قریشی ۷۔نورالحسن ہاشمی ۸۔مولانا غلام رسول مہر
۹۔مالک رام ۱۰۔ڈاکٹر نذیر احمد ۱۱۔مسعود حسین خاں ۱۲۔رشید حسن خان
۱۳۔ڈاکٹر جمیل جالبی ۱۴مشفق خواجہ
تدوین متن کے مدارج
۱۔فراہمی متن
کسی کتا ب کی تدوین کیلئے اس کے جملہ قلمی اور مطبوعہ نسخے فراہم کرنے چاہئے۔چونکہ عملاً ایسا مشکل ہے اس لئے اہم نسخوں سے مدد لینا کافی ہے۔
۲۔ترتیب متن
ماخذات کو زمانی،فکری،موضوعاتی ترتیب دیں



۳۔تصیح متن
بہت سارے ماخذات ملیں تو ان میں قیاسی تحقیق کو برؤے کار لاتے ہوئے اس متن کی تصحیح کریں۔ 
۴۔تحقیق متن
تحقیق کے اصولوں کو عمل میں لائیں جو ماخذ ہم تک پہنچا ہے یہ کتنا مستند ہے مخطوطے کی پوری طرح چھان بین کریں اس کے عہد کے پیرامیٹر سے اس کو جاتچ لیں۔
۵۔تنقید متن
یہ بھی تحقیق سے متعلقہ ہے اس کے محاسن اورمعائب تلاش کریں پھر اپنی رائے دیں یہی تحقیق کی حصہ بن جائے گا۔
۶۔توضیح متن
جو تحقیق کی ہے،تصحیح کی ہے اسکی وضاحت حواشی میں کریں۔
تدوین کے ماخذات
تدوین کے ماخذات مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔بیاض
شاعر اپنے مشاعرے اور دوسرے مشاعروں کے پسندیدہ اشعار اپنی ڈائری میں لکھ لیتے تھے اپنی رائے کا اظہا ر بھی درج کر دیتے تھے اس مشاعرے یا شعر کی خوبیا ں خامیاں بھی لکھتے تھے ۔پھر دوسری جگہ ان کو اجاگر کرنے کیلئے یہی بیاض کام آتی تھی۔تنقید کی ابتدائی شکل بیاض ہی تھی۔تنقید کی ابتدائی جھلکیا ں بیاضوں میں ملتی ہیں۔
۲۔تذکرے
اردو کی ابتدائی تنقید کے نمونے تذکروں میں ملتے ہیںیہ تنقید کا ابتدائی مرحلہ ہے۔تذکرہ نگار باقاعدہ نقاد نہیں ہوتالیکن ان میں تنقیدی شعور ضرور موجود ہوتاہے۔اپنے عہد کے نامور شعراء کا مختصر سا ذکر کر دیتے تھے تعارف اور رائے بھی دی جاتی تھی۔اس کی مثال تذکرۃ الشعراء ہے۔شعراء کی تعریف اور اسلوب کی تعریف وغیرہ تاریخی اعتبار سے بھی ان کے بارے میں معلومات محفوظ ہو جاتی تھیں۔اہم شعراء سے آگاہی ان تذکروں سے حاصل کی جاتی ہے نیز ماحول اور معاشرے سے آگاہی کا ذریعہ بھی یہی تذکرے بھی تھے۔انتخاب اشعار اتنا پرانا ہے جتنا کلامِ اشعار پرانا ہے۔پسندیدگی اور نا پسندیدگی ہی تنقیدی شعو ر ہے۔بعض تذکرہ نویس اپنے عہد کے مشہور لوگوں کو محض تعصب کی بنا ء پر اپنے تذکروں میں شامل کرتے تھے۔
۳۔قلمی نسخے/مخطوطے
ہاتھ سے لکھی جانیوالی تحریریں اس میں شامل ہیں۔
۴۔مکتوبات/خطوط
ہاتھ سے لکھے گئے خطوط اصل عبارت اصل خط تدوین کے ماخذات میں شامل ہیں مثلاً ڈاکٹر خلیق انجم نے غالب کے خطوط پانچ جلدوں میں مدون کئے ہیں۔ان خطوط سے معاشرے کی تہذیب ماحول اور عہد سے آگاہی حاصل کی جا سکتی ہے اردو نثر کے اسلوب کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
۵۔ملفوظات
لوگوں کی زبان سے اداکئے ہوئے الفاظ جو محفوظ کرلیئے جاتے ہیں ان کو ملفوظات کہتے ہیں۔

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

منٹو کی افسانہ نگاری میں عنوانات کی اہمیت

افسانہ کے فن میں عنوانات کی اہمیت