افسانہ کے فن میں عنوانات کی اہمیت
افسانہ کے فن میں عنوانات کی اہمیت
ادب کی کوئی بھی صنف ہو اسکی پہچان اس کا عنوان ہوتا ہے خاص طور پر افسانہ اپنے عنوان کی معرفت سے مشہور ہوتا ہے چونکہ افسانہ ایک مختصردورانیے کی نثری تحریری کہانی ہوتی ہے جو زندگی کے کسی ایک پہلو کو بیان کرتی ہے اس لئے اس کے تشکیلی عناصر میں عنوان کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ افسانے کی کامیابی میں عنوان اہم کردار ادا کرتا ہے۔عنوان جتنا دلچسپ ہو گا اتنا ہی قارئین کی توجہ کا مرکز و محورگردانا جائے گا۔اکثر افسانہ پڑھنے والے محض اس بنیاد پر افسانوں کا انتخاب کرتے ہیں کہ ان افسانوں کا عنوان ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے عنوان میں تاثیر بھی افسانے کی قرات کا باعث بنتی ہے۔ایک اچھے عنوان سے قاری بنا افسانہ پڑھے افسانے کے موضوع کو جانچ لیتا ہے اور یہ ایک اچھے افسانہ نگار کی خوبی ہوتی ہے کو وہ اپنے افسانے کو ایسا عنوان دیتا ہے جو اس افسانے میں موجود کہانی، کردار، کیفیت ،علامت آفاقی حقیقت وغیرہ سے باہمی ربط رکھتا ہے۔عنوان دراصل افسانے کے موضوع کا ترجمان ہوتا ہے افسانہ نگار کی داخلی و خارجی کیفیت و سوچ کا آئینہ دار ہوتاہے اس کے موضوعات کا عکاس ہوتاہے۔اپنے عہد کی ثقافت،معاشرت،معیشت،اقداروغیرہ کا نمائندہ ہوتاہے۔اپنے سماج کی برائیوں مثلاً جہالت،غربت ،جنسی و معاشی استحصال،اخلاقی بے راہ روی،اٖحساس محرومی، احساس کمتری و برتری، عدم معاشی و سماجی و جنسی توازن،ذہنی و نفسیاتی کشمکش،جذباتی کیفیات،غلامی و آزادی جیسے افکارو تخیلات سے افسانہ نگار افسانے کا عنوان تجویز کرتا ہے اور شاید یہی افسانے کا مقصد و منشا بھی ہونا چاہئے۔
"ہر ملک اور ہر قوم کے لئے ہر وقت اور ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی سماجی، اقتصادی یا
سیاسی رجحان ایسا ہوتاہے جس کی طرف کم و بیش معاشرے کا ہر فرد اپنے مخصوص نقطۂ نظر
سے دیکھنے کی کوشش کرتاہے اس زمانے کے افسانے بھی اکثر انہیں رجحانات سے متاثر
ہو کر لکھے جاتے ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ جب ایسے اہم مسائل کے متعلق کوئی
افسانہ لکھا جائے تو اس کی سرخی بھی ایسی ہی ہو جو اس واقعے پر روشنی ڈالے
لوگ خواہ مخواہ اس کی طرف متوجہ ہو کر افسانہ پڑھنے پر مجبور ہوں گے ۔ " ] ۱ [
بعض لوگوں کے ہاں سرخی کو صرف ایک اشتہار کی حیثیت دی جاتی ہے ۔ان کے نذدیک یہ ضروری نہیں کہ افسانے کی سرخی ہی افسانے کے موضوع، روح اور اس کے مرکزی خیال کی ترجمانی کرے اور اس کی توقعات کو پورا کرے۔
"چونکہ سرخی کی حیثیت بالکل اشتہار کی سی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ضروری نہیں
کہ وہ افسانے کی روح۔ اس کے مرکزی خیال یا مقصد کو ظاہر کرے۔ اسے دیکھنے کے
بعد یقینی نہیں کہ پڑھنے والا فیصلہ کر سکے کہ جس اشتہار کو دیکھ کر وہ ایک چیز کی
طر ف مائل ہوا ہے وہ آگے چل کر اس کی توقعات کے مطابق ہی ہو۔ " ] ۲ [
بعض افسانہ نگار افسانے کی سرخی کا انتخاب افسانہ ختم ہونے کے بعد تجویزکرتے ہیں صرف ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ خیال پر تھوڑا زور دیا جائے تو ایک سے زیادہ اچھی سرخیاں خود بخود سامنے آجاتی ہیں ۔ یہ سرخیاں دلکش اور قاری کو اپنی طرف مائل کرنے میں اہم کردار کرتی ہیں۔
" افسانہ ختم ہونے کے بعد صرف خیال پر تھوڑا سا زور دینے کی ضرورت ہے۔
ایک سے زیادہ ایک اچھی سرخی خود بخود سامنے آئے گی۔ افسانہ لکھنے کے بعد
اگر کوئی شخص تھوڑی دیر کے لیے شاعرانہ یا رومانی ہونا پسند کرے۔ اور تخیل کی
رہبر ی میں اپنے دل کے گوشوں کا جائزہ لے تو سرخیوں کی کمی نہیں۔ کبھی اپنے
افسانے کا نام سمن پوش رکھ سکتا ہے۔ کبھی صنوبر کے سایے ، اور کبھی موجو ں کی پکار
کبھی شاعرانہ فطرت کی مد د سے اسے فن تمنا کہہ کر پکار سکتا ہے۔ کبھی اس کے
افسانے کی سرخی ، نرگس خود پرست بن سکتی ہے۔ اور کبھی اندھا دیوتا، مختلف
افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں کے نام رکھے ہیں۔ اور افسانہ پڑھنے والے
پہلی نظر میں ان میں خا ص دلچسپی رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ سرخیا ں ایسی بھی ہیں
جو محض تخیل کی مد د سے قائم کی جاتی ہیں۔ ممکن ہے افسانے کی سرخی قائم کرنے
کا شاعرانہ یا رومانی طریقہ پسند نہ کیا جائے۔ اس لئے اس کے متعلق اگر صر ف
ایک بات کا لحاظ رکھا جائے تو پھر کی دوسرے اصول کے جاننے کی ضرورت نہیں
اور وہ یہ کہ افسانے کی سرخی تصور زاہو۔ یعنی وہ قاری کو سوچنے کی طرف مائل کرے
سرخی یا عنوان ان پر نظر پڑتے ہی اس کا تصور اور تخیل کام کرنے لگے۔ " ] ۳ [
حیرت ،تجسس اور جذبہ وغیرہ بھی افسانے کی سرخی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔وہ کون سے عوامل ہیں وہ کون سا پس منظر ہے وہ کون سے حالات ہیں جنہوں نے افسانہ نگار کو افسانہ کا ایسا نا م رکھنے پر اور افسانہ لکھنے پر مجبور کیا بلاشبہ اس قسم کے سوالات ہمارے ذہنوں میں افسانہ پڑھنے کے بعد سب سے پہلے پیدا ہو گے۔
" پہلی چیز جس پر افسانے کی بنیا د ہے وہ اس کا مرکزی خیال اور تحریکی جذبہ ہے۔
کون سے چیز ایسی ہے جس نے افسانہ نگار کو وہ افسانہ لکھنے پر مجبور کیا۔ یہی پہلاسوال ہے جو
افسانہ پڑھنے کے بعد سب سے پہلے ہمارے ذہن میں آتاہے۔ پریم چند کے افسانے
کی سرخیاں ان کے تحریکی جذبے سے حاصل کی گئی ہیں مثلا آہ بے کس، مامتا، اندھیرا،
کرموں کا پھل، غیرت کی کناری، افسانے پڑھنے کے بعد، اگر ہم ان سرخیوں پر نظر ڈ
الیں تو اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ واقعی یہی سرخی موجودہ افسانے کے لئے سب سے زیادہ موزوں تھی۔
کبھی کبھی افسانہ نگار اپنی افسانے کی سرخی کی بنیاد محض اس خیا ل پر رکھتا ہے جس
کی ترجمانی ان نے اپنے افسانے میں کی ہے ۔ کہیں محبت کا جذبہ دیکھایا ہے۔
تو افسانے کی سرخی محبت، گوہر محبت، محبت کی قربانیاںِ ِ ، محبت کی بھینت وغیرہ رکھ دی،
کہیں ایثار کا جذبہ افسانے کی بنیاد ہے، تو اسے آسانی سے آیثار ، کی سرخی
دے دی نفرت ، حقارت، حسد ، شک ، رشک ، غم، اور اس قسم کے مختلف قسم کے
جذبات پر افسانے کے پلاٹ کی بنیاد دی ہے، اس لئے ایسی سرخیاں
جو محض ان خیالات یا جذبات اور صفات کے حامل ہوں کافی سمجھی جاتی ہیں۔" ] ۴ [
اکثر کرداروں کے ناموں میں سے کسی مرکزی یا ثانوی کردارکے نا م کو افسانے کی سرخی سے موسوم کیا جاتاہے وہ کردار اپنی فعالیت کی وجہ سے افسانے یا کہانی میں خاص اہمیت کا درجہ رکھتے ہیں یہ کردار تاریخی،سیاسی ، معاشی اور معاشرتی،روحانی وغیرہ ہیروزکے ناموں پر ہو سکتے ہیں۔
"اکثر افسانہ نگار اپنے افسانے کی سرخی اسی کردار کو بناتے جس نے افسانے
کے پلاٹ اس کی ترقی اور اس کی دلچسپی میں سب سے زیادہ حصہ لیا ہے، اس قسم کی
مثالیں اردو میں کثرت سے مل جائیں گی۔ جہاں تو خود اس مخصوص کردار کا نام
لکھ دیا جائے گا۔ اور کبھی نام کے ساتھ اس کی وہ صفت بھی شامل کر دی جائے گی۔
جو افسانے کے پلاٹ میں سب سے زیادہ اہم اثرات پیدا کرتی ہے۔ کبھی کبھی
ایسا بھی ہوتا ہے کہ کردار کے اس مخصوص درجے یا مرتبے کا ذکر کیا جاتا ہے
جو سو سائٹی میں اس نے حاصل کیا ہے جس کے ہر فرد میں چندمخصوص صفات
ایسی ہیں۔ جو اس مرتبہ کے ہر شخص میں ہونی ضروری ہیں۔ پہلی قسم کی اقسام
جن میں صر ف نا م لکھے جاتے ہیں۔ دو طرح کے ہیں۔ اول وہ سرخیاں جو کلاسیکی
یا رومانی افسانے سے لی گئی ہیں۔مثلاًکلوپٹرا،کمیوپڈ اور سانکی، مینارنگا، دوسری
قسم کے نام وہ ہیں جن میں رومانیت یا کلاسیت نہیں بلکہ اس کی بجائے یا تو مقامی رنگ
کی جھلک ہے یا وہ براہِ راست دوسری زبانوں کے افسانوں کی نقل میں پہلی قسم کی
سرخیوں میں کملا، سوشلا،شانتی،رادھا،ثریا،استاد شمو خاں،کالی چرن،
جگا اور موذیل وغیرہ زیادہ نمایاں مثالیں ہیں۔" ] ۵[
مخصوص واقعے کی طرف بھی کچھ سرخیاں اشارہ کرتی ہیں اور محض سرخی پڑھ کر قاری افسانے میں موجود واقعے کی تہہ تک کا اندازہ لگا لیتاہے بس سرخی کا واقعے سے گہرا ربط ہونا چاہیے۔
"کچھ سرخیاں ایسی ہیں جو افسانے کے مخصوص واقعے کی طرف اشارا کرتی ہیں
اور پڑھنے والا سمجھ جاتاہے کہ اس افسانے میں کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ایسی سرخیاں
عموماً پسند کی جاتی ہیں۔جن کا ذکر سرخی کو اور زیادہ دل کش بنا دیتاہے مثلاً
رومال کی چوری،ایسی سرخی ہے جو ایک افسانے کے اصل واقعہ کی طرف تو ضرور
اشارہ کرتی ہے لیکن اس میں حسن یہ ہے کہ وہ پڑھنے والے کو
بے حد مشتاق بنا دیتی ہے اور وہ افسانے کی شکل میں دیکھے۔" ] ۶ [
دوسری زبانوں میں لکھے جانے والے افسانوں کو اردو میں تراجم کی بھی ایک روایت ملتی ہے ۔روسی، فرانسیسی اورترکی زبانوں کے مشہور افسانوں کو اردو زبان میں ترجمہ کیا گیا اور ان کے عنوانا ت کو لغوی اور اصطلاحی نام دئیے گئے ایسی ایک کثیر تعداد افسانوں کی اردو زبان میں موجود ہے۔
"انگریزی افسانوں کے ترجمے جب سے اردو میں زیادہ ہونے لگے ان کا موضوع
انسان اور انسانی واقعات،جذبات اور احساسات کے علاوہ دوسری مخلوقات
بھی ہونے لگیں چونکہ یہ چیز اردو میں نئی ہے اور ہر شخص اسے افسانوں میں
کثرت سے دیکھنا پسند کرتاہے اس لئے افسانہ نگاراگر ایسے افسانے لکھیں تو ان
کی سرخی بھی وہی ہو جس چیز کا ذکر خاص طور پر افسانے میں ہے مثلاًگھوڑا اردو کا
ایک مشہور افسانہ ہے کتے اردو میں اپنی قسم کی ایک نایاب چیز ہے شکر گزار آنکھیں
اردو کے اچھے افسانوں میں سے ہے یہی وجہ ہے کہ ہر پڑھنے والا اس
قسم کی پہلی ہی نظر میں دلکشی محسوس کر لے گا۔" ]۷[
افسانے کے انجام کو سرخی بنا دیا جاتا ہے جس پر وہ افسانہ ختم ہو رہا ہوتاہے۔یہ تکنیک بھی بعض افسانوں کی کامیابی کا باعث بنتی ہے۔
"بہت سے افسانہ نگار اپنی سرخی کی بنیا د افسانے کے انجام پر رکھتے ہیں افسانہ جس
مخصوص واقعہ پر ختم ہو اس کی ذکر سرخی میں ہوتاہے مثلاً شاعر کی شکست اور مصورکی
موت، اسے شروع کرنے سے پہلے ہمیں افسانے کا انجام معلوم ہے اور یہی وجہ
ہے کہ ہم افسانے کو بے چینی کے ساتھ شروع کرتے ہیں اور ہماری فطرت
ہمیں واقعات کی تہہ تک پہنچنے پر مجبور کرتی ہے۔" ] ۸[
افسانے کے تشکیلی عناصرمیں افسانے کو عنوان دیتے ہوئے کچھ اصول ،شرائط و ضوابط،خصوصیات اور تجاویز کو مدنظر رکھا جائے تو افسانہ کی کامیابی میں یہ پہلا زینہ ہو سکتے ہیں۔
۱۔عنوان سادہ اور با معنی ہوپڑھنے والے کیلئے ذومعنویت یا ابہام پیدا نہ کرے اورآسانی سے یاد رہنے والا ہو۔
۲۔عنوان افسانے میں موجود کسی کردار،کیفیت،علامت اور نقطہ نظر بھی ہو سکتاہے جو افسانے کا محورو مرکز ہو۔
۳۔افسانے میں کسی نظر گیر فقرے،ضرب المثل،قول اور کہاوت کو بھی عنوان بنایا جا سکتا ہے۔
۴۔کسی اہم تاریخی و سماجی و سیاسی شخصیت کے نام کو بھی عنوان سے تعبیر کیا جاسکتاہے۔ ۵۔کسی مشہور جگہ کا نام بھی افسانہ کا عنوان ہو سکتاہے۔
۶۔افسانے کا عنوان افسانے میں موجود کسی اہم واقعے کے نام پر بھی ہو سکتاہے۔
۷۔لسانی لحاظ سے کوئی اسم ،ترکیب یا اضافت بھی عنوان بن سکتی ہے۔
۸۔عنوان کی افسانے کے موضوع اور کہانی سے مطابقت ہونی چاہئے۔
۹۔ایتلاف خیا لات بھی عنوان کیلئے چنے جا سکتے ہیں۔
۱۰۔عنوان پہلے سے موجود مشہور فن پاروں میں سے بھی لئے جا سکتے ہیں۔
۱۱۔عنوان ایسا ہو جو چونکا دینے واا ہو اس میں اچانک پن کا مادہ ہونا چاہئے۔
۱۲۔عنوان غبی،بے حس،ڈل اور بے روح نہیں ہونا چاہیے۔" ] ۹[
۱۳۔بعض اوقات افسانے کا عنوان ہیرو یا ہیروئن کے نام پر رکھا جاتاہے۔افسانے کے انجام کو بھی ایک حسین ترکیب کی صورت میں زیب
عنوان بنا لیا جاتا ہے۔بعض دفعہ افسانے کی سرخی قائم کرتے ہوئے موسم یا وقت کا لحاظ رکھا جاتاہے۔کبھی پلاٹ کی مناسبت سے کسی شعر کے ایک مصرعے یا کسی ایک مصرعے کے کسی ایک ٹکڑے کو بھی بطور عنوان کے لکھ دیا جاتاہے۔بعض دفعہ افسانے کے مجموعی تاثر کوذہن میں رکھ کرعنوان قائم کردیا جاتا ہے۔
اویس احمد ادیب نے افسانے کو سرخی دینے کے دو طریقے بتائے ہیں ۔پہلا طریقہ یہ ہے
کہ واقعات کی تر تیب اور کردار کی موزنیت کے بعد سرخی کا انتخاب کیا جائے۔ دوسرا
طریقہ یہ ہے کہ پہلے سرخی متخب کی جائے اس کے بعدپلاٹ اور کردارکی تخلیق
کی جائے۔ وہ دوسرے طریقے کو مستحن خیال نہیں کرتے ۔ اس کے علاوہ وہ کرداروں
کے نا م ، افسانے کے انجام ، اوقات اور لمحات کو بھی افسانے کی سرخی کے لیے مختلف طریقے
بتانے ہیں۔ وہ عنوان کے لئے غیر مانوس الفاظ، کسی کے قول کے انتخاب ، غیر زبانوں کے
جملوں ، فقروںِ ، الفاظ اور ضرب الامثال کو مہمل سمجھتے ہیں اس کے برعکس وہ عام فہم اور چبھتے
ہوئے الفاظ کے استعمال کو اہمیت دیتے ہیں۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی نے افسانے کی ترقی
کے لیے سات طریقے بیان کیے ہیں۔ اور ہر طریقہ میں اردو افسانوں کی مختلف سرخیوں کی
عملی مثالیں دی ہیں۔ ان کے بتائے گئے طریقوں میں اول جذبات کے اعتبار سے ،دوم
ہیرو یا ہیروئن کے نام ، سوم انجام کے اعتبار سے، چہارم موسم یا وقت کے لحاظ سے پنجم رومانی
فضا کے حوالے سے، ششم خود نوشت کے انداز میں، ہفتم متضاد قسم کی سرخیاں شامل ہیں۔
فردوس فاطمہ نصیر نے افسانے کی سرخی کے لیے اوپر بیان کئے گئے طریقے ہی بتائے ہیں۔
البتہ وہ افسانے کی سرخی سے جاذب نظر ، کیف آور اور سحر آفریں کی خصوصیات کا تقاضا کرتی ہے
ڈاکٹر نگہت ریحانہ خان بھی افسانے کی سرخی کا مرکزی خیا ل کی نمائندہ اور موقع و محل کے لحاظ سے
موزوں اور مختصر ہونے پر زور دیتی ہے۔" ] ۱۰[
سید وقار عظیم نے اپنی کتاب "فن افسانہ نگاری" میں" افسانے کی سرخی"کے عنوان سے تفصیلی بحث کی ہے جس میں وہ افسانے کو سرخی یا عنوان دینے کے کچھ اصولی طریقے اور اس کی چند خصوصیات کو سامنے لاتے ہیں۔ان کے نزدیک افسانے کی سرخی ایسی ہو جو افسانے کی روح اور اس کے مرکزی خیال پر نظر ڈال سکے اور مجموعی اثر کی حامل بھی ہو۔اس کے علاوہ وہ افسانے کے عنوان کی دو خصوصیات کو بھی بیان کرتے ہیں۔وہ افسانے کے عنوان میں تصور زئی اور قاری کے لئے فکر انگیزی جیسی خصوصیات کے حامل ہونے پر زور دیتے ہیں اور ان کے نزدیک افسانہ ختم ہونے کے بعدسرخی دی جانی چاہیے نہ کہ شروع میں سرخی جما دی جائے۔سرخی یا عنوان کا بیانی،فلسفیانہ،طویل اور غیر شاعرانہ ہونا بھی غیر مستحسن ہے ۔وہ افسانے کے عنوان کے پرکشش،مختصر،موقع محل کے مطابق،ادبیت ، تازگی اور تصور آفرینی کانمونہ ہونے کے بھی قائل ہیں۔انھوں نے اردو افسانے کے عنوانات کے تعین کے مختلف طریقوں پر روشنی ڈالی ہے مثلاً بعض اوقات کردار کا نام،عنوان بنتاہے تو کبھی کردار کے ساتھ اس کی غا لب صفت بھی لگا دی جاتی ہے۔بعض سرخیاں افسانے کے مخصوص واقعے کی شاہد ہوتی ہیں۔بعض اوقات سرخی کی بنیاد افسانے کے انجام پر رکھی جاتی ہے۔
مولا بخش نے ما بعد جدید معاصر افسانے میں عنوان کی اہمیت اور شاعرانہ وسیلوں سے اجتناب کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔
"مابعد جدید معا صر افسانہ نگار افسانہ کے عنوان پر بھی نظر رکھتے ہیں۔
انھیں معلو م ہے کہ نثر بغیر عنوان کے نظم بن سکتی ہے یا نثر میں شاعری کے
عنوانات قائم کرنے سے افسانہ کے پورے TEXTUREکو نقصان پہنچ سکتا ہے۔" ] ۱۱ [
مغربی نقادوں کے ہاں سرخی کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاتا۔وہاں بھی اس کے انتخاب میں مختلف طریقہ ہائے اختیار کئے جاتے ہیں۔
"Sometimes a good title just pops into a writer's
head out of nowhere. Other times, the writer may
only discover the perfect title in the midst of writting,
after the manuscript is finished, or evern after it is
edited or re-edited. Then once he has decided on
the perfect title, the editor may decide to change
it.Many writers use a working title composing a story.
The working tiltle gives the writer a way to refer to the
work as something other than" untitled".The working
title,of course, may end up.The title usually achieves
meaning to reaeders as they gain insight while they
read the fiction,or even after they finshed it.[12]
اردو میں افسانہ نگاروں کے ہاں موضوعات کے تنوع کے باعث ان کے افسانوں کی سرخیاں اور عنوانا ت میں بھی غیر یکسانیت پائی جاتی ہے۔اردو میں صنف افسانہ کو مختلف ادوارمیں تقسیم کیا گیا ہے کبھی رومانیت نے افسانے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تو کبھی ترقی پسندوں نے اس پر اپنی مہر ثبت کر دی اور عام آدمی کی آواز کا ذریعہ بن گیا ۔بغاوت،آزادی کی تحریکوں اور غلامی سے نجات جیسے جذبات کا ترجمان بن گیا۔افسانہ کبھی حلقہ ارباب ذوق کی محفل کا ہا ر سنگھار بنا یا گیا تو کبھی سیاست کے پیچ و خم کی بساط کا مہرہ سمجھا گیا ۔تقسیم ہندوستان اوراس میں ہونے والے فسادات کو افسانہ نے کھل کر قبول کیاتو کبھی علامت نگاری کے ذریعے اپنے موضو ع اور مقصد کی تکمیل کی۔غرض اردو افسانہ ایک چھوٹے لاڈلے بچے کی طرح کبھی ایک گود میں تو کبھی دوسری گود میں پرورش پاتا رہا ۔افسانے نے جہاں وقت ، عہد اور سماج کے مطابق اپنے موضوعات اور تکنیک تبدیل کیں وہیں اس کے عنوانات میں حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی۔سرخیاں ایسی دی جانے لگیں کہ جن سے قاری کی دلچسپی اور تجسس میں اضافہ ہوا۔مختلف افسانہ نگاروں کے افسانوں کے عنوانا ت کا سر سری جائزہ لیں تو عنوانا ت میں اچانک پن،تجسس،حیرت وغیرہ کے پہلوؤ پائے جاتے ہیں مثلاً شوکت صدیقی،کالی بلا۔ممتاز مفتی،اخروٹ جھا چوہا بھیس۔بدام رنگی،بلونت سنگھ۔ گوندنی،غلام عباس۔ہتک،مجید کا ماضی،دھواں،کالی شلوار،کھول دو،بو، بلاؤز،ننگی آوازیں ،سعادت حسن منٹو۔اپنے دکھ مجھے دے دو،راجندر سنگھ بیدی۔حرام جادی، محمد حسن عسکری۔، عصمت چغتا ئی، لحاف۔لوہے کا کمر بند،رام لعل وغیرہ وغیرہ اپنے عنوانات کیوجہ سے خاص شہرت کے حامل ہیں۔
مذکورہ عہد کے افسانوں میں موضوع کے انتخاب کو خاص اہمیت دی
گئی ہے جیسے پریم چند،راشدالخیری،سدرشن،اعظم کریوی،علی عباس حسینی
،اوپندر ناتھ اشک وغیرہ نے اپنے افسانوں کیلئے ایسے موضوعات منتخب
کئے ہیں جن کا تعلق جیتی جاگتی دنیا کے بے بس اور مظلوم انسانوں
سے ہے مثلاً سماجی نابرابری،رشوت ستانی،معاشرتی انتشار،
جہالت،بیکاری، گداگری،جہیزاور بے میل شادی کے عبرتناک
انجام وغیرہ۔یلدرم،نیاز اوراُن کی قبیل کے دیگر روحانی افسانہ نگاروں
نے نرم،گرم اور گداز بانہوں کے لمس کے تاثرات سے اپنے موضوعات
سجائے ہیں حالانکہ موضوع کا انتخاب افسانہ نگار کے لئے ایک
مشکل مرحلہ ہے جس کے لئے عمیق مشاہدے اور گہرے مطالعے کی
ضرورت ہے تبھی افسانہ نگار موضوع پر عبوررکھتے ہوئے کہانی کے
تانے بانے بن سکتاہے۔پلاٹ کو باقاعدگی سے ترتیب دے سکتاہے
اور اُسی کے وسیلے سے عنوان بھی قائم کر سکتا ہے ۔عنوان میں
ایک مقناطیسی کشش اور معنویت ہونی چاہیے کہ قاری سرخی دیکھ کرافسانہ پڑھنے پر آمادہ ہو جائے ] ۱۳ [
افسا نے کے فن میں عنوان کی حیثیت،اہمیت،کردار،دلچسپی،ضرورت،تاثر،عکاسی،علامت،کیفیت اور پہچان وغیرہ سے انکار ممکن نہیں۔
حوالہ جات
۱۔سید وقار عظیم،فن افسانہ نگاری،دہلی،اعتقاد پبلشنگ ہاوس،۱۹۷۷ء ،ص ۱۰۴
۲۔سید وقار عظیم،فن افسانہ نگاری،ص ۹۸
۳۔سید وقار عظیم،فن افسانہ نگاری،ص ۹۹
۴۔سید وقار عظیم،فن افسانہ نگاری،ص ۱۰۰۔۱۰۱
۵۔سید وقار عظیم،فن افسانہ نگاری،ص ۱۰۱
۶۔سید وقار عظیم،فن افسانہ نگاری،ص ۱۰۲
۷۔سید وقار عظیم،فن افسانہ نگاری،ص ۱۰۲
۸۔سید وقار عظیم،فن افسانہ نگاری،ص ۱۰۴
۹۔http://moodywriting.blogspot.com/2014/01/choosing-title-for-your-fiction-or.html
۱۰۔نسیم عباس احمر،اردو افسانے کے نظری مباحث،فیصل آباد،مثال پبلشرز،۲۰۱۵ء ،ص ۹۹
۱۱۔مولا بخش،معاصر اردو افسانہ،نئے تنقیدی تناظر،مشمولہ اطلاقی تنقید،نئے تناظر،مرتب گوپی چندنارنگ،سنگ میل پبلشرز،لاہور،
۲۰۰۸ء ، ص ۳۵۰
۱۲ ۔ Writting Genre Fiction: A Guide to the Craft, Thoma Milhoran.Universal Publishers, Boca Raton,Florida,USA,2006, page 152
۱۳۔ڈاکٹر صغیرافراہیم،اردوافسانہ۔ترقی پسند تحریک سے قبل۔۹۱۰۱ء تا ۱۹۳۶ء ،دہلی،ایم اے افسیٹ پرنٹرس ،۱۹۹۱ء ،ص ۲۱۔۲۲
Comments
Post a Comment