منٹو کی افسانہ نگاری میں عنوانات کی اہمیت


منٹو کی افسانہ نگاری میں عنوانات کی اہمیت
سعادت حسن منٹوایک کثیرالجہت شخصیت ہیں ان کی دیگر ادبی و علمی حیثیتوں کا کوئی اعتراف کرے یا نہ کرے بحیثیت افسانہ نگار اس سے انکار ممکن نہیں کہ وہ اردو کے بلندپایہ افسانہ نگارہیں۔ذکر اردو افسانے کا ہواور بات منٹو تک نہ پہنچے یہ بھلا کیسے ہو سکتاہے۔منٹو کی زندگی کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تواسکی تمام زندگی افسانہ نما ہے۔وہ اپنے افسانوں کا وہ آفاقی کردار ہے جو افسانوی لباس پہن کر حقیقت کا ننگا پن ڈھانپ لیتا ہے۔منٹو ہواکا وہ جھونکا ہے جو معاشرے ،عہد،سماج اوراقدار کو چھو کر بناسندیسہ دیئے کسی روزنِ دیوار سے نکل کربجلی کی تجلی کی طرح فضاؤں میں بکھرجاتا ہے۔منٹو وہ کڑوا گھونٹ ہے جس کو معاشرے نے چکھا تو ضرور مگر نگل نہ سکا۔منٹو کی زندگی ایک تثلیث میں بند ہے افسانہ ،سماج اور عہداور یہی عناصرافسانے کی تخلیق کا باعث ہیں اور اس مقالہ کا موضوع بھی ہیں
پروفیسر شمس الحق عثمانی لکھتے ہیں
"اردو افسانہ نے بہت جلد عالمی ادب میں ایک اعلی مقام حاصل کر لیا ہے
ایک نسبتاًنئی زبان کیلئے یہ ایک غیر معمولی اعزاز ہے۔اردو افسانہ کو یہ اعزاز دلانے 
میں سب سے نمایاں اور کلیدی کردار سعادت حسن منٹو ( ۔۱۹۱۲ ؁ ء ۔ ۱۹۵۵ ؁ ء)
نے اداکیا۔سعادت حسن منٹو فنِ افسانہ نگاری کی کئی جہات پر حاوی تھے کبھی 
وہ تاریک و متعفن بالا خانوں میں مجروح انسانیت کی خاموش فریاد کو آواز دیتے ہیں
،کبھی وہ نو آبادیاتی استحصال کو جدید روشنی کا نام دینے والی برطانوی حکومت کی
ریشہ دوانیوں کو طشت ازبام کرتے ہیں اور جب فسادات اپنی ہولناکی کو 
حاوی کردیتے ہیں تو ہم سعادت حسن منٹو کو اعلی انسانی اقدار سے لیس پاتے ہیں
۔چونکہ وہ آئنن چیخوف اور گیوی موپساں کے مترجم رہے تھے 
اس لیے ادب کا آفاقی معیار ان کے شعور میں ابتداء ہی سے داخل ہو چکا تھا"۔[ 1 ]
پروفیسروارث علوی منٹو کے با رے میں رقمطراز ہیں کہ
"منٹو نے افسانہ میں حقیقت نگاری ،اپنے معاشرے اور عہد کی برائیوں ،
حالات و واقعات کی عکاسی خون جگر سے کی ۔منٹو اپنے عہد سے پوری
طرح جڑاہوا ہے کیونکہ وہ محب وطن اور حساس انسان عام انسانوں سے 
کہیں زیادہ شعور رکھتا تھامنٹو نے جس عہد میں پرورش پائی وہ عہد اور 
اس کی فضا انقلابی اور باغی تھی لہذا بغاوت اور انقلاب منٹو کی روح 
میں رچ بس گیااگرچہ اس بغاوت کے پس منظر میں
ان کی ذاتی شخصیت،ذہن اور گھریلو ماحول کا بھی اثر موجود ہے" ]۲[
منٹوانسانی زندگی کے بیشتر پہلوؤں سے بخوبی واقف تھے ان میں سیاسی شعور بھی تھا اور سماجی دوراندیشی بھی بلاکی تھی تاریخ سے بھی آگاہی تھی اور عصرِ حاضر سے بھی عہدہ برا تھے غرضیکہ متنوع شخصیت کے مالک تھے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کے عنوانا ت میں سیاسی سماجی اور نفسیاتی تنوع موجود ہے اور انہوں نے اپنے افسانوں کو ایسے عنوانات دیئے کہ جو خود اپنے پس منظر میں ایک دنیا بسائے ہوئے تھے۔اپنے عنوانات کے لحاظ سے یہ افسانے اس لیے دلچسپ اور قدرے منفرد و مختلف ہیں کہ ان کی کہانی کا عنوان سے گہراربط ہے ایک حقیقت اور منطق ان کے پس منظر میں پوشیدہ ہے۔روایتی طور پر منٹو نے بھی اپنے افسانوں کا مواداپنے ارد گرد کے ماحول،عہداور سماج سے لیا مگر ان کو پیش اس ادا سے کیا کہ بقول شاعر رت ہی بدل گئی۔منٹو نے جن موضوعات کو اپنے افسانوں کے عنوانات سے پیوستہ کیا ان میں سیاسی،سماجی،معاشرتی،اخلاقی، علامتی،معاشی،جنسی،نفسیاتی،اصلاحی،ذہنی ، نظریاتی ،مذہبی،تاریخی ،غلامی،استحصالی،بے حسی،جذباتی،نسوانی غرضیکہ زندگی کے تمام پہلو شامل ہیں۔مذکورہ بالا پہلوؤں نے منٹو کو اپنے افسانوں کے عنوانات تلاش کرنے میں بنیادی ماخذات کا کردار ادا کیا۔اس مطالعے میں توجہ اس امر پر مرکوز ہو گی کہ منٹو کے عنوانات ،منٹوکے افسانوں کی داخلی فضا سے کس قدر ربط رکھتے ہیں۔علاوہ ازیں اُن کے عنوانات افسانوں کو فنّی و فکری طور پر کس قدر توانائی بخشتے نظر آتے ہیں۔
سید وقار عظیم اپنے ایک مضمون لکھتے ہیں کہ
"منٹو کو اس کی حقیقت نگاری، اس کی نفسیاتی موشگافی، اس کی دوربین و 
دوررس نگاہ، اس کی جرات آمیز اور بے باکانہ حق گوئی، سیاست، معاشرت
اور مذہب کے اجارہ داروں پر اس کی تلخ لیکن مصلحانہ طنز اور اس کی
مزے دار فقرہ بازیوں کی وجہ سے سراہا گیا ہے۔اور سیاسی مذہبی،
معاشرتی اور ان سب سے بڑھ کر جنسی زندگی پر اس نے مخصوص
اور منفرد انداز میں نظر ڈالی ہے۔اس پر اسے مطعون کیا گیا ہے اور اس 
دادوتحسین اور ہجوو تضحیک میں لوگوں کا جو رویہ رہا ہے اس میں حق پسندی
اور توازن بھی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ افراط و تفریط کا جذبہ غالب
نظر آتاہے۔تنقید و تبصرہ اکے اس سارے کھیل میں جو برسوں سے منٹو کی 
زندگی اور اس کے افسانوں کے محورپر کھیلا جا رہا ہے،منٹو ایک مثالی ہیرو 
بھی نظر آتاہے اور مثالی ولین بھی۔کچھ نظریں اس بات کی عادی ہو گئی 
ہیں کہ اسے بس حسن کا مجسمہ سمجھ کر دیکھیں اور کچھ نگاہوں کو اس میں
برائیوں کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔حالانکہ اگر غور سے دیکھا 
جائے تو ان دونوں طرح کے دیکھنے والوں کو جذباتی شدت پسندی 
نے اصل حقیقت تک پہنچنے اوراس کے کھوٹے کھرے کو پہچاننے کا 
موقع نہیں دیا۔دنیا کی ہر دوسری چیز کی طرح منٹونہ محض اچھا ہے
اور نہ محض برا اس کے افسانے نہ خالصتاًحسن و جمال کے مظاہر
ہیں اور نہ ہی محض برائیوں کے حامل۔اس کی حقیقت نگاری،
اس کی نفسیاتی موشگافی ،اس کی دوررس اور دوربین نظر، اس کی
جرات آمیز حق گوئی، اس کی تلخ مصلحانہ طنز او ر اس کی شگفتہ فقرہ بازی 
کے اچھے اور برے دونوں پہلوہیں۔۔۔کبھی بہت اچھے اور کبھی بہت برے ] ۳[
پریم گوپال متل کی منٹو پر مرتبہ ایک کتاب ہے جس کے عرض مرتب پروہ لکھتے ہیں کہ اپنے افسانوں کے بارے میں خود منٹو نے ایک جگہ لکھا ہے۔
"زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے واقف ہیں
تو میرے افسانے پڑھیے۔اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کرسکتے تو اس کا 
مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں ۔
جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ دراصل موجودہ نظام کا نقص ہے"۔ ] ۴ [
ابواللییث صدیقی ااپنے ایک مضمون میں منٹوکی شخصیت اور فن کے بارے میں لکھتے ہیں
"منٹو بھی عجیب آدمی تھا اور اتنا ہی عجیب افسانہ نگار۔شروع شروع میں 
مجھے منٹو کی شخصیت اور اس کے افسانوں دونوں میں سے کسی سے کوئی 
خاص دلچسپی پیدا نہیں ہوئی شاید اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ منٹو کے بعض 
فسانوں میں اس طرح کی گندگی تھی جس کا بظاہرکوئی مقصد نہ تھا، سوائے
اس کے کہ منٹو نے اس میں اپنی مریضانہ ذہنیت کا اظہار کیا تھا
اور یہ غلاظت محض جنسی قسم کی تھی اور مجھے اس اعتبار سے منٹو اور میرا جی
ایک دوسرے سے بہت قریب نظر آتے تھے۔کبھی میں یہ سوچتا
کہ میرا جی کے پاس جو تین گولے تھے ان میں سے ایک گولا خود منٹو تھا۔
اتنا ہی مبہم اور اتنا ہی دلچسپ"۔ ]۵[

حوالہ جات
۱۔
۲۔پروفیسر وارث علوی،منٹوایک مطالعہ،
۳۔سید وقار عظیم، داستان سے افسانے تک،کراچی ،اکیڈیمک آفسٹ پریس ،۱۹۹۰ء ؁،ص ۲۸۲۔۲۸۳
۴۔پریم گوپال متل،منٹو شخصیت اور فن،دہلی،موڈرن پبلشنگ ہاؤس،۱۹۸۰ء ؁،ص ۱۴۔۱۵
۵۔ابواللیث صدیقی،منٹو کا فن ،مشمولہ منٹو شخصیت اورفن،مرتب،پریم گوپال متل،منٹو شخصیت اور فن،دہلی،موڈرن پبلشنگ ہاؤس،۱۹۸۰ء ؁، ص ۵۰

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ کے فن میں عنوانات کی اہمیت