خاقان ساجد حیات و شخصیت
خاقان ساجد حیات و شخصیت
خاقان ساجد ۱۵فروری ۱۹۶۵ ء کو راولپنڈی کے قریب واقع شہر واہ کینٹ میں پیدا ہوئے ۔ خاندانی نام مرزا محمد ساجد بیگ چغتائی جبکہ مختصر دستاویزی نام محمد ساجد ہے اور خاقان ساجد قلمی نام ہے جو انہوں نے ۱۹۷۲ء میں اختیار کیا اس نام کی نسبت یہ ہے کہ خاقان منگولوں اور چغتائی مغلوں میں بادشاہ کو کہا جاتا تھا چونکہ خاقان ساجد کا تعلق بھی چغتائی قبیلے سے ہے اس لیے انھوں نے بھی اپنا قلمی نام خاقان اسی سے نسبت سے اختیار کیا ۔خاقان ساجد کے علاوہ ’’ایس چغتائی" کے نام سے بھی ادبی تحریریں لکھیں جبکہ ترجمہ نگاری کرتے ہوئے مدیران رسائل کی سہولت کے مطابق مختلف اوقات میں متعدد قلمی نام بھی استعمال کیئے۔
خاقان ساجد کا آبائی علاقہ ضلع سرگودھا کی ایک تحصیل بھیرہ شریف سے ہے اور بھیرہ شریف دریائے جہلم کے کنارے واقع ایک مشہور تاریخی اور علمی شہر ہے یہ وہ شہر ہے جہاں پر مقدوینہ کے بادشاہ سکندر اعظم اور یہاں کے مقامی راجہ پورس کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی تھی۔ ازمنہ قدیم کے اس تاریخی شہر کی شہرت کی ایک اور وجہ یہاں پر قائم دینی درسگاہ" دار العلوم محمدیہ غوثیہ ‘‘ ہے جہاں پر تفسیر القرآن ,فقہ, احادیث شریف اور دوسرے اسلامی موضوعات پر مذہبی تعلیم دی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس مدرسے میں درس نظامی کورس بھی کرایا جاتا ہے یہاں کی مشہور روحانی شخصیت پیر کرم حسین شاہ الازہری ہیں جنھوں نے ۱۹۷۱ء میں ضیا ء النبی کے نام سے سیرۃ النبیؐ پرتفسیر لکھی۔ خاقان ساجد کے آباؤاجداد چونکہ مغلیہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس لیے مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد انگریزوں نے بعض ایسے خانوادوں کو جن سے بغاوت کا خدشہ تھا ملک کے دوردراز علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور کر دیا اور یوں ان کے آباؤ اجداد ضلع چکوال کے علاقے لہڑی پنج گرائیں (لہڑی کا کاں) میں آباد ہوئے اور جہاں سے ۲۰-۱۹۱۰ ء کے درمیانی عرصے میں ان کے داداجان اور ان کے سسرال نقل مکانی کر کے بھیرہ شریف کے محلہ اندرون دروازہ چٹی پل والا میں سکونت اختیار کر لی۔ اب بھی ان کے بہت سے رشتہ دار لہڑی کا کاں میں رہائش پذیر ہیں جب کہ کئی گھرانے بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں دوسروں علاقوں میں اور شہروں میں منتقل ہو چکے ہیں۔
خاقان ساجد کے والد مرزا محمد سلیم جن کی پیدائش۱۹۳۰ ء میں بھیرہ میں ہی ہوئی وہ ۱۹۸۳ء میں ریلوے کنٹرول آفس سرگودھا سے بطور ڈپٹی چیف کنٹرولر ریٹائرڈ ہوئے اور انھوں نے بھیرہ کی بجائے سرگودھا شہر میں مستقل سکونت اختیار کر لی خاقان ساجد کے تین بھائی اور دو بہنیں ہیں والدہ کا انتقال ہو چکا ہے جب کہ والد گرامی حیات ہیں۔
خاقان ساجد کے والد مرزامحمد سلیم۱۹۶۵ء میں جب وہ واہ کینٹ میں ریلوے میں سٹیشن ماسٹر کے طور پر تعینات تھے تو خاقان ساجد کی پیدائش ہوئی۔ پہلی جماعت سے ساتویں تک پاک ویسٹرن ریلوے اسکول ملک وال ضلع منڈی بہاؤالدین میں تعلیم حاصل کی اور یہاں انکی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ ہر کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کرتے رہے ۱۹۷۷ ء میں ان کے والد کا تبادلہ ملک وال سے سرگودھا ہو گیا تو سرگودھا میں گورنمنٹ جامع ہائی سکول میں آٹھویں جماعت میں داخلہ لیا آٹھویں میں بورڈ کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ بھی حاصل کیا میٹرک تک اسی سکول میں پڑھتے رہے مارچ ۱۹۸۰ ء میں میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا پھر گورنمنٹ کالج سرگودھا موجودہ یونیورسٹی آف سرگودھا میں ایف ایس سی پری میڈیکل میں داخلہ لیا اسی دوران پاک آرمی میں بطور آفیسر شمولیت کے لیے جونئیر کیڈٹ کورس JC-9کے لیے اپلائی کیا اورکامیاب ہو گئے منتخب ہونے پر گورنمنٹ کالج کو خیر باد کہہ دیا اور۳۰نومبر۱۹۸۰ء کو جونئیر کیڈٹ بٹالین ٹوبہ کیمپ جو پاکستان ملٹری اکیڈمی کا کول کی تھرڈ بٹالین کہلاتی تھی اس کو جوائن کر لیا ۔
عسکری ملازمت کا آغاز مدارج اور اہم واقعات:
نومبر۱۹۸۰ء میں بطور جونئیر کیڈٹ پاک آرمی میں شمولیت کے بعد ان کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ بھی ساتھ ساتھ جاری رہا JCB نشتر کمپنی میں (نومبر۱۹۸۰ء تا ستمبر۱۹۸۲ ء) دو سال زیر تربیت رہے اور ایف ایس سی پری انجئنیرنگ فرسٹ ڈویژن کے ساتھ پاس کی۔ خاقان ساجدنے ہونہار، لائق اور دوراندیش طالب علم ہونے کی بنا پر فائنل ٹرم میں سارجنٹ کی پوزیشن حاصل کی جو ہاؤس ماسٹر کے بعد دوسری اہم تعیناتی ہوتی ہے۔
ستمبر۱۹۸۲ء میں JCB سے پاس آؤٹ ہو کر انھوں نے پی ایم اے کاکول سیکنڈ پاک بٹالین میں شمولیت اختیار کر لی یہاں پر ان کی کمپنی کا نام بابر تھا۔ پی ایم اے میں دو سال ستمبر۱۹۸۲ء سے ستمبر۱۹۸۴ء تک زیر تربیت رہے اور یہاں بھی ان کی کارکردگی مثالی رہی جس کی بنا پر تھرڈ ٹرم میں ان کو کارپول بنا دیا گیا ان دنوں یہ پوزیشن کورس کے پہلے چھبیس کیڈٹس کو ملتی تھی جبکہ کل تعداد ساڑھے تین سو سے زیادہ تھی اور بلاشبہ اس کثیر تعداد میں یہ عہدہ حاصل کرنا ان کی محنت اور لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
۶ستمبر۱۹۸۴ء کو بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ آفیسر کے طور پر ان کی پاس آوٹ ہوئی اور ان کو پاک فوج کے شعبہ سگنلز کی مایہ ناز یونٹ 45سگنلز بٹالین میں پوسٹ کر دیا گیا جو اس وقت آزاد کشمیر کے علاقہ میر پور ، جڑی کس میں تعینات تھی۔ اور یہ تعیناتی ان کے لیے نیک شگون تھی اس سے وطن عزیز کے لیے سرحدوں کی نگرانی پر مامور پاک فوج کے دستے میں شامل ہو کر ملک کی حفاظت کرنے کا فریضہ سر انجام دینے کا موقع میسر ہوا۔
دوران سروس بیشتر ملٹری کورسسز امیتازی گریڈنگ میں پاس کیے اپریل ۱۹۸۸ء میں کیپٹن کے عہدے پر ترقی ہوئی اور ۱۹۹۰ء میں ملٹری کالج آف سگنلز راولپنڈی سے جی ایس سی ٹیلی کام انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد ان کا تبادلہ ۱۴سگنل بٹالین سیالکوٹ میں کر دیا گیا جہاں۱۹۹۴ء میں ان کو میجر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی اور ساتھ ہی ۳۲سگنل بٹالین راولپنڈی میں کمپنی کمانڈر کے طور پر خدمات سرانجام دینے کے احکامات مل گئے ۱۹۹۵ء میں کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ سے سٹاف کورس پاس کیا اور۱۹۹۶ء میں ای ایم ای کالج راولپنڈی سے ٹیکنیکل سٹاف کورس پاس کیا۔۱۹۹۷ء میں جی ایچ کیو کی ٹریننگ برانچ میں ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹرائن اینڈ ایویلیشن ،میجر جنرل سکندر شامی کے سٹاف آفیسر کی ذمہ داریاں سنبھالیں فروری۱۹۹۸ء میں چار ماہ کی عسکری تربیت کے لیے ان کو چین بھیجا گیا۔ جہاں پر انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرانک اینڈ الیکٹریکل انجینئرز میں پیشہ وارانہ تربیت حاصل کی اُس کے بعد وطن واپسی پر ان کو جنرل سٹاف آفیسر گریڈ ٹو کے طور پر ہیڈ کوارٹرز لاہور کور میں تعینات کر دیا گیا اور واپڈا آپریشن کے لیے قائم کیے گئے مانیٹرنگ سیل میں بھی ذمہ داریاں سرانجام دینے کا موقع ملا۔
ستمبر۲۰۰۱ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی ہوئی تو ساتھہی۴۵سگنل بٹالین کے کمانڈنگ آفیسر بنا کر پوسٹ کر دیا اس وقت یہ یونٹ کوہاٹ میں تھی۔ اپریل۲۰۰۴ء تک بطور کمانڈنگ آفیسر عسکری خدمات سرانجام دیتے رہے اس دوران شمالی اور جنوبی وزیرستان، کرم ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی میں آپریشنل کمیونیکشن مہیا کرتے رہے ۔بعد ازاں اپریل۲۰۰۴ء تااگست۲۰۰۷ء تک ہیڈ کوارٹرز آرمی سگنلز راولپنڈی میں جنرل سٹاف آفیسر گریڈون کے عہدے پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اگست ۲۰۰۷ء میں کرنل کے عہدے پر ترقی ملی اور ملٹری کالج آف سگنلز راولپنڈی میں بطور چیف انسٹرکٹران کو تعنیات کر دیا گیا۔ ستمبر۲۰۰۹ء میں سٹریٹیجک پلان ڈویژن SPDمیں بطور ڈائریکٹر تعیناتی ہوئی۔۱۴اگست۲۰۱۲ء کو بے داغ سروس ریکارڈ اور بہتر کارکردگی کی بنا پر صدر مملکت کی جانب سے ان کو ستارہ امتیاز ملٹری عطا کیا گیا ۔ ستمبر۲۰۱۳ء میں سگنلز ڈائریکٹوریٹ جی ایچ کیو سے ایک طویل 33سالہ عسکری خدمات سرانجام دینے کے بعد پاکستان آرمی سے ریٹائرڈ ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد۲۰۱۳ء سے Hilltop Real Estate and Builders" کے نام سے بحریہ ٹاون راولپنڈی میں اپنا ذاتی کاروبار کر رہے ہیں۔ کاروبار کے ساتھ ساتھ ادبی سرگرمیوں میں بھی جزولاینفک کی حیثیت سے فیس بک پر ’’فسانہ گو‘‘ کے نام سے ایک ادبی فورم بنایا ہوا ہے جس کے وہ سرگرم رکن ہیں جس میں ہر ماہ افسانہ یونٹ منعقد کیا جاتا ہے۔ فلاحی اور رفاعی کاموں میں بھی دلچسپی لیتے ہیں۔ حال ہی میں ’’رحمانی لنگر‘‘ کے نام سے غربا اور مساکین کے لیے خواجہ کارپوریشن اڈیالہ روڈ راولپنڈی میں ہر جمعرات کو کھانا کھلانے کے سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور اس سلسلے کو مزید وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں خاقان ساجد ایک بارعب اور دلکش شخصیت کے مالک ہیں نرم مزاج اور خوش طبع انسان ہیں۔ایک صاحبِ ثروت،مذہبی اور سرکاری افسر ہونے کے باوجود اپنے نظریات اور رعب دوسروں پر نہیں لاگو کرتے۔ابتداء بطور مترجم کی مگر خود کو ایک بہترین افسانہ نگار بھی ثابت کیا۔
ان کی خاکہ نگاری کرتے ہوئے اعجاز احمد نواب لکھتے ہیں۔
’’ خاقان ساجد ایک باغ و بہار شخصیت ہیں ملنسار اور پرخلوص انسان ہیں۔ چھوٹے بڑے کی تخصیص کے بغیر ہر ایک سے پرتپاک سے ملنا ان کا خاصہ ہے سرکاری افسر اور قدرے مذہبی انسان ہیں مگر افسری کا احساس دلاتے ہیں اور نہ اپنامذہب دوسروں پر تھوپتے ہیں ان کی شگفتہ طبیعت کے سبب ان کی صحبت میں کوئی شخص بور نہیں ہو سکتا۔ جب بھی آتے ہیں ان کے گرد مجلس لگ جاتی ہے انہیں نت نئے لطیفے دلچسپ واقعات اور قصے کہانیاں سناتے دیکھ کر کبھی مجھے ان پر پرانے وقتوں کے کسی داستاں گو کا گمان ہوتا ہے وہ شستہ اور شائستہ نثر لکھنے میں ایک خاص مقام اورمنفرد انداز رکھتے ہیں بنیادی طور پر مترجم ہیں یا پھر پاپولر فکشن پر مبنی کہانیاں لکھتے رہے ہیں تاہم افسانہ نگاری ان کی طبیعت ثانیہ ہے ان کی تحریروں میں تصنع یا تکلف نہیں یہ اپنے قاری کو زندگی کے متنوع رنگوں سے بہت سیدھے سادے انداز میں متعارف کراتے ہیں‘‘۔(۱)
خاقان ساجد کی ازدواجی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی ابتدائی حصے میں تلخیوں سے عبارت ہے انھوں نے دوشادیاں کیں ہیں پہلی شادی ۲۵دسمبر۱۹۹۰ء کو لاہور کے ایک مغل خانوادے میں یاسمین مرزا سے ہوئی یہ ارینج میرج تھی بد قسمتی سے یہ شادی روایتی خاندانی اختلافات اورر بخشوں کے باعث اگست۲۰۰۴ء میں علیحدگی اور بعد ازاں طلاق پر منتج ہوئی پہلی بیوی سے ان کی دو بیٹیاں عائشہ ساجد اور مومنہ ساجد ہیں عائشہ نے نسٹ یونیورسٹی اسلام آباد سے ۲۰۱۵ء میں سافٹ وئیر انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی جب کہ مومنہ سکول آ ف فیشن اینڈ ڈیزائن لاہور میں ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں گریجویشن کر رہی ہے۔ ان کی بڑی بیٹی عائشہ ساجد ادبی ذوق رکھتی ہیں اور انگریزی زبان میں کہانیاں لکھتی ہیں اور مومنہ اعلیٰ پائے کی مصورہ ہیں او رکتابیں پڑھنا اس کا شوق ہے انہوں نے دوسری شادی نومبر ۲۰۰۵ء میں سکھر کے ایک تاجر گھرانے میں اسماء شیخ سے کی جن سے ان کی کوئی اولاد نہیں اسماء شیخ بہ نسبت یاسمین کے اچھا شعری اور ادبی ذوق رکھتی ہیں ان کا رویہ دوستانہ ہے جبکہ ان کہ پہلی بیوی یاسمین مرزا نے ایک دفعہ ان کی بہت سی کتابیں اور رسائل جن میں ان کی طبع زاد اور ترجمہ شدہ کہانیاں چھپی تھیں ردی والے کے ہاتھ فروخت کر دیں اس اثاثہ کے کھوجانے کا آج تک ان کو ملال ہے۔
ادبی لگن اور خدمات:
خاقان ساجد کو لکھنے لکھانے کا شوق بچپن ہی سے تھا اور یہ شوق ان کو وراثت میں ملا تھا کیونکہ ان کے والد مرزا محمد سلیم اعلیٰ ادبی ذوق رکھتے تھے ریلوے میں ملازمت اختیار کرنے سے پہلے وہ شورش کا شمیری کے ہفتہ وار رسالے ’’چٹان‘‘ میں بطور جونئیر معاون کام کرتے رہے تھے اور ان کی والدہ مرحومہ نذیر بیگم کی سکول کی تعلیم تو واجبی تھی مگر ذاتی شوق اور کوشش سے انھوں نے اپنی علمی استعداد میں اچھا خاص اضافہ کر لیا تھا قرآن پاک ترجمہ اور تفسیر کیساتھ پڑھی ہوئی تھیں انہیں شعروادب سے بہت لگاؤتھا وہ خود بہت اچھے شعر کہتی تھیں۔ خاقان ساجد کو بچپن میں اپنے گھر میں حور، زیب النساء، آہنگ دھنک، اخبار جہاں، خواتین ڈائجسٹ، سب رنگ، الف لیلےٰ اور عالمی ڈائجسٹ جیسے رسائل کا مطالعہ کرنے کا موقع میسر تھا کیونکہ یہ رسائل باقاعدگی سے ان کے گھر آتے تھے اور مسلسل مطالعے سے ادبی ذوق کی مزید آبیاری ہوتی رہی اس کے علاوہ ریلوے کلب ملک وال کی لائبریری سے بھی کتابیں منگوا کر اپنے مطالعے کی پیاس بجھاتے رہے اور خاندانی لکھنے لکھانے اور پڑھنے پڑھانے کی روایت کو برقرار رکھا جو آگے چل کر ان کے لیے ادبی حلقوں میں ایک بہترین افسانہ نگار کے طور پر شناخت کا باعث بنا ۔گھر والوں نے ان کی دلچسپی اور تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے بچوں کی دنیا، پھول، نو نہال اور تعلیم و تربیت جیسے رسائل بھی لگوائے ہوئے تھے ان کے والدین نے ہمیشہ نہ صرف ان کی نصابی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں کو بھی سراہا۔
انہوں نے پہلی بار’’بھوبل‘‘ کے عنوان سے دسمبر۱۹۸۲ء میں کہانی لکھی جسے ادیب جادوانی اور محبوب جاوید کی ادارت میں نکلنے والے ’’مون ڈائجسٹ‘‘ نے فروری ۱۹۸۳ء کے شمارے میں اس کہانی کو بلا عنوان شائع کیا۔ قارئین کو اس کا عنوان تجویز کرنے کی دعوت دی گئی جس پر انعام بھی رکھا گیا تھا اور اس کہانی کو بہت اچھا رسپانس ملا جس نے ان کے شوق کو مہمیز کیا۔
جس وقت یہ کہانی چھپی اس وقت وہ کیڈٹ کے طور پر پی ایم اے کا کول میں زیر تربیت تھے پاس آؤٹ ہونے کے بعد جب ان کی تعیناتی یونٹ میں ہوئی اور سینئر آفیسرز کے علم میں یہ بات آئی کہ وہ رسائل میں کہانیاں لکھتے ہیں تو ان پر میڈیا سے انٹریکشن کے نام پر کہانیاں لکھنے پر پابندی لگا دی گئی اور یوں لکھنے لکھانے کے شوق کو پابند سلاسل کر دیا گیا یوں سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔
یہ پابندی دس سال تک جاری رہی کہ ۱۹۹۵ ء میں جب وہ میجر تھے تو ان کو کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ میں کورس کے لیے بھیجا گیا تو وہاں پر انھوں نے ’’زمین وآسمان‘‘ کے عنوان سے ایک افسانہ لکھا جو کالج کے مجلے ’’النساء‘‘ میں ’’ مجرم لوگ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اس افسانے کے لکھنے پر انہیں میجر جنرل سعید الظفر کی اہلیہ نے ایوارڈ سے بھی نوازا اور اس طرح دس سال پر محیط لکھنے لکھانے کا موقوف سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا انھوں نے طبع زاد کہانیوں اور افسانوں کے ساتھ دوسری زبانوں میں لکھے گئے مشہور افسانوں کے تراجم بھی کیے۔ شروع میں انھوں نے ڈائجسٹوں میں لکھاخاص طور پر تراجم بہت کیے اس وقت چونکہ ادبی حلقے ڈائجسٹوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے اس لیے کوئی خاطر خواہ حوصلہ افزائی نہیں ملتی تھی۔ ادبی پرچوں کی طرف انھوں نے ۲۰۰۱ ء میں رخ کیا اورافسانہ لکھنے کی ابتداء حامدسروش کے پرچے’’ ابلاغ‘‘ سے کی ۔علاوہ ازیں ان کے افسانے ’’مون ڈائجسٹ‘‘، لاہور نیرنگ خیال، راولپنڈی، سمبل راولپنڈی،مسٹر میگزین، راولپنڈی، ’’ادبیات‘‘، اسلام آباد، ’’تخلیق‘‘، لاہور، ’’کتاب‘‘، اسلام آباد، ’’امبربیل‘‘، کمانڈ اینڈ سٹاف کالج ادبی مجلہ، لاہور تطہیر، تشکیل‘‘، تادیب، نالہ دل‘‘، زرنگاہ‘‘، ہلال اور ’’نوائے وقت کے ادبی صفحہ پر شائع ہوتے رہے۔ ان کے اب تک کہانیوں اور افسانوں کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن میں آدم زاد، کباڑیا اور وحوش شامل ہیں جب کہ ایک پراسرار ناول’’چمپون‘‘، بھی ان کی تخلیقات میں شامل ہے اس کے علاوہ تراجم کی صورت میں ان کے چار مجموعے اب تک شائع ہو چکے ہیں جن میں شاہکار عالمی افسانے، نوبل انعام یافتہ مصنفین کے شاہکار افسانے، نوبل انعام یافتہ مصنفین کے یادگار افسانے اور ۱۴منتخب افسانے شامل ہیں ۔ان تخلیقات کے علاوہ ادبی سرگرمیوں کی معاونت بھی کرتے رہے۔ ۱۹۹۵ ء میں دوران سٹاف کالج کوئٹہ کورس، سٹاف کالج کے انگلش میگزین "CITADIL"کے ایڈیٹوریل بورڈ کے رکن بھی رہے بلکہ عملاً اس سال کا پرچہ انھوں نے ہی مرتب کیا۔ یونس حسرت نے ۱۹۹۶ ء میں اپنے میگزین ’’امبربیل‘‘ کا اجراء کیاتو انہوں نے اس کی بطور معاون مدیر اور مترجم بھرپور مدد کی اسی طرح اعجاز احمد نواب کا مسٹر میگزین ۲۰۰۱ ء میں راولپنڈی سے نکلا تو اس کے ادارتی امور میں وہ شامل رہے ۲۰۰۷ ء میں روزنامہ پاکستان میں ’’چائے پہ بات‘‘ کے عنوان سے ہلکے پھلکے انداز میں سماجی موضوعات پر کالم لکھتے رہے پھر ۲۰۱۲ ء میں اسی روزنامہ پاکستان میں ’’دامن کوہ‘‘ کے عنوان سے سیاسی کالم لکھتے رہے۔ فوج کے مختلف رسائل مثلاً پاکستان آرمی جنرل، گرین بک اور قاصد میں انگریزی اور اردو میں پیشہ ورانہ موضوعات پر مضامین بھی لکھتے رہے۔پاک فوج کے ترجمان جریدے ’’ہلال‘‘ میں مزاحیہ مضامین"Humour in Uniform"لکھے۔
خاقان ساجد ایک کثیر الجہت شخصیت ہیں ادب کے ساتھ ساتھ وہ ایک اچھے کارٹونسٹ اور مصور بھی ہیں اور کمپیرئنگ کا فن بھی رکھتے ہیں کور آف سگنلز کے مجلے ’’قاصد‘‘ میں گذشتہ 32سال سے ان کے بنائے ہوئے کارٹون باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں جب کہ ان کی بنائی ہوئی آئل پینٹنگزپی ایم اے کے میوزیم ،سٹاف کالج کوئٹہ کی لائبریری اور ایف سی میس کوئٹہ میں آویزاں ہیں جوہر دیکھنے والے سے تخلیق کار کے فن اور لگن کی داد سمیٹتی ہیں۔
خاقان ساجد اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود وقت کی کمی کا رونا نہیں روتے وقت کے بارے میں ان کا اپنا ایک خاص نقطہ نظر ہے کہ اگر ہر کام کو اس کی نوعیت اور ضرورت کے تحت manageکیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت کی کمی کا احساس تک نہ ہو مگر بد قسمتی سے ہمارے ہاں نہ تو ادیب وقت کا صحیح تعین کر پاتے ہیں اور نہ ہی قاری۔ خاقان ساجد کا ادبی تقریبات اور ادبی حلقوں میں اٹھنا بیٹھنا کم ہی رہا ہے تاہم بعض ادباء سے ان کے انفرادی سطح کے تعلقات ہیں۔
مقالہ نگار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:
’’سروس کی مصروفیات کے پیش نظر ادبی تقریبات اور ادبی حلقوں میں میرا اٹھنا بیٹھنا کم رہا ہے تاہم بعض ادباء سے انفرادی سطح پر تعلقات اور ملنا جلنا رہا ہے۔ اہل ادب میں میرے سب سے گہرے دوست عصر حاضر کے ایک بہت بڑے افسانہ نگار محمد الیاس ہیں اور میرے پبلشرز اعجاز احمد نواب ہیں منشاء یاد اور اظہر جاوید مرحوم سے بھی محبت کا رشتہ استوار رہا ہے۔ دیگر اہل ادب میں کرنل ابدال بیلا، عرفان جاوید، سونان اظہر جاوید، حامد سروش، نصیر احمد ناصر، شکیل عادل زادہ، شبیر بھیروی، یونس حسرت، جلیل عالی، محمد عاصم بٹ، شاکر کنڈان، نعیم بیگ، ارشد ملک، عائشہ مسعود ملک، عابدہ تقی اور علی اکبر ناطق سے باہمی احترام اور محبت کا رشتہ برقرار ہے فون یا سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سے رائٹرز اور باذوق قارئین سے رابطہ رہتا ہے‘‘(۲)
اپنی ادبی زندگی میں وہ کسی سے مرعوب نظر نہیں آتے نہ ہی کسی سے متاثر ہو کر وہ لکھنے کی طرف مائل ہوئے بلکہ ان کا اپنا طرز حیات ہے زندگی کے بارے میں اپنا نقطہ نظر ہے ادبی زندگی میں کس کا پیروکار ہونا ان کو پسند نہیں۔ اپنے شوق کے لیے لکھتے ہیں کہانی کو پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں کہانی:
’’ہبوط آدم سے کہانی سننا ساری نوع انسانی کا محبوب مشغلہ رہا ہے ہم سبھی بچپن میں نانیوں دادیوں سے کہانیاں سنتے ہیں لیکن جب بڑے ہو جاتے ہیں تو کہانی کا پہلو ہم میں سے اکثر کے ہاتھ چھوٹ جاتا ہے تا ہم ایسوں کی کبھی کمی نہیں ہوتی جو کہانی کی انگلی پکڑ کر زندگی کی شاہراہ پر ساری عمر حیران بچے کی طرح چلتے رہے ہیں۔
میں انسان کے اس قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں مجھے کہانی سے محبت ہے کہانی سننے سے بھی اور کہانی لکھنے سے بھی۔ کہانی لکھنا یوں بھی مجھے عزیز ہے کہ یہ میرے رب کو پسند ہے اس نے داستان یوسف سنائی تو فرمایا: نحن نقص علیک احسن لقصص‘‘( ہم تمھیں ایک عمدہ قصہ سناتے ہیں) میں اس سنت پر عمل کرتا ہوں مجھے فخر ہے کہ میں ایک کہانی کار ہوں کہانی لکھنا بڑی خوب صورت عادت ہے یہ ایک سپیشل کام ہے اللہ چاہتا ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ یہ سپیشل کام کریں وہ فرماتا ہے ’’باہم قصے کہا کرو تاکہ انہیں نصیحت ہو‘‘۔ (۳)
خاقان ساجد ادب برائے زندگی کے قائل ہیں وہ زندگی کو ویسا ہی دیکھتے ہیں جیسی وہ ہے لیکن بین السطور یہ پیغام دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ زندگی کیسی ہونی چاہیے ۔ ان کے پیش نظر یہ بات بھی رہتی ہے کہ ایسا ادب تخلیق کیا جائے جو قاری کے جذبات کی تہذیب کرے ادیب کا اصل موضوع بھی یہی ہوتا ہے کہ قاری کے جذبات کی تہذیب کرے۔ طبیعتاً وہ آزادی پسند ہیں ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی سوچ ، فکر اور عمل میں آزاد ہے تمام لوگوں کو اپنے افکار و خیالات اور عقائد پر کار بند رہتے ہوتے دوسروں کے افکار، خیالات اور عقائد کا بھی احترام کرنا چاہیے باہمی رواداری اور برداشت کا رویہ اپنانا چاہیے کسی کو اپنے خیالات دوسروں پر مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا البتہ مکالمہ جاری رہنا چاہیے
’’میں ہر انسان سے پیار کرتا ہوں میرا موقف یہ ہے کہ انسان فرشتہ ہے نہ شیطان ایک لمحہ میں وہ نیکی کرتا ہے تو اگلے ہی لمحے اس سے کسی بری حرکت کا ارتکاب بھی ہو سکتا ہے ہمیں انسان کو سمجھنا چاہیے جب ہم اسے سمجھنے لگتے ہیں تو پھر اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ یہی صوفیاء کا مسلک ہے اس لیے صوفی ازم میرے دل کے قریب ہے ہماری سوسائٹی بطور خاص فرقوں اور گروہوں میں بٹی ہوئی ہے صوفی ازم ایک دوسرے کے قریب لا سکتا ہے میں نے صوفی ازم پر ایک افسانہ ’’صحبت بہ اہل دل‘‘ لکھا ہے مزید بھی لکھنا چاہتا ہوں۔‘‘(۴)
ادب اور معاشرے کے بارے میں ان کا نقطہ نظر ہے کہ کسی بھی معاشرے کے لیے ادب کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ادب زندگی کو سنوارتا ہے اور تہذیب کو اجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے سائنسی ترقی کی اپنی اہمیت ہے مگر تہذیبی شعور لکھنے پڑھنے سے ہی آتا ہے۔ ادب معاشرے میں مثبت تبدیلی کا کا باعث بنتا ہے معاشرہ اور اس کی سوچ تغیر پذیر ہے اور ادب پہلا وہ واحد عنصر ہے جو کسی معاشرے کے ارتقاء کو درست سمت فراہم کرتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ معیاری ہو۔
’’ادب کا غیر معیاری ہونا معاشرے میں فساد پیدا کرتا ہے ایسا معاشرہ جہاں معیاری ادب کی جگہ غیر معیاری ادب لے لے وہ معاشرہ بے سمتی کا شکار ہو جاتا ہے‘‘۔ (۵)
خاقان ساجد کے نزدیک کہانی میں ریڈایبلٹی ہونی چاہیے جو خود کو پڑھوالے وہ کہانی اچھی ہے کتابوں کی طرف رجحان میں کمی پر اظہار افسوس کرتے ہوئے وہ اس کی وجہ سوشل میڈیا کو قرار دیتے ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ ہمارا نوجوان طبقہ زیادہ وقت سوشل میڈیا کو دیتا ہے حکومت کو چاہیے کہ ملک میں لائبریریوں کی تعداد بڑھائے والدین اور اساتذہ بچوں کو کتابوں کی طرف لگائیں۔ انہیں سالگرہ اور امتحان میں کامیابی پر کتابیں تحفے میں دیکر حوصلہ افزائی کریں اور ان میں ذوق اور شوق کی خوبیاں پیدا کیں ویسے بھی کتابیں انسان کی تہذیب کرتی ہیں اسے شعور بخشتی ہیں اور سوچ کے نئے دریچے وا کرتی ہیں فلم یا ڈرامہ دیکھنے والا وہی کچھ دیکھتا ہے جو اسے دکھایا جاتا ہے جب کہ کتاب پڑھنے والے کا ذہن سارا منظر نامہ خود تشکیل کرتا ہے جس سے اس کی Imginationزیادہ ہوتی ہے۔
خاقان ساجد ادب برائے زندگی کے قائل ہیں اور ادب سے ان کا تعلق کم و بیش پچھلے۳۶ سال سے قائم ہے اس ادبی زندگی میں ان کو بہت سے واقعات سے گزرنا پڑا جو نہ صرف دل پر نقش ہو گئے بلکہ ان کی تحریروں میں بھی ان کی جھلک نظر آتی ہے اعجاز احمد نواب ( مدیر اعلیٰ مسٹر میگزین) کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے ایسے ہی ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔
’’۱۹۹۷ ء میں یونس حسرت نے لاہور سے ’’امبر بیل‘‘ ڈائجسٹ نکالا تو میں نے انہیں عالمی ادیبوں کی کہانیوں کے تراجم کر کے بھیجنے شروع کیے انھوں نے اچھے معاوضے کا وعدہ کیا مگر عملی طور پر حساب دوستاں درد دل والا معاملہ تھا۔ کہانی وہ اعلیٰ درجے کی مانگتے تھے۔ میں نے ایک آدھ دفعہ اپنی طبع زاد کہانی انہیں دی تو انھوں نے اسے شائع نہ کیا تب میں نے دو کہانیاں ’’ آدم زاد‘‘ اور ’’زوجین‘‘ لکھیں اور انہیں چین اور ترکی کے دو فرضی ادیبوں کی تخلیقات قرار دے کر یونس صاحب کو بھیج دیں وہ کہانیاں پڑھ کر پھڑک اٹھے اور کہا جناب! یہ ہوتی ہے کہانی! ہمارے یہاں کیا لکھا جا رہا ہے کہانیاں تو باہر کے ادیب لکھتے ہیں جب کہانیاں شائع ہو گئیں تو کئی سال بعد میں نے انہیں حقیقی بات بتائی۔ بہت ناراض ہوئے یہ ہے ہماری نفسیات کہ ہم اپنے لوگوں کو اہمیت نہیں دیتے‘‘۔ (۶)
فنی لحاظ سے خاقان ساجد کے ہاں بھی ہمیں ایڈگرایلن پو کے وصنع کردہ افسانے کے چاروں عناصر نظر آتے ہیں مثلاً وحدت تاثر، وحدت زماں، وحدت مکاں اور اختیار لفظی ان کے خیال میں افسانے میں کہانی کا عنصر شامل نہ ہو تو قاری اس میں دلچسپی ہی نہیں لیتا کہانی کا عنصر ضرور شامل ہونا چاہیے۔ اور یہی ان کے افسانوں کا خاصہ ہے کہ ان کا کوئی بھی افسانہ کہانی پن سے عاری نہیں۔ ان کی تحریروں میں تصوف کا رچاؤ اُسی جذبے کو آگے چلانے اور پھیلانے کی کوشش کرتا ہے کہ انسان کے اندر سے مذہب نکل جائے تو باقی حوانیت ہی بچتی ہے۔ سب انسان خالق کا کنبہ ہیں رنگ ،نسل، مذہب، قومیت اور فرقوں کی بنیاد پر انسانوں میں امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔
سب سے محبت کرنی چاہیے ان کے نزدیک اشفاق احمد ممتاز مفتی ،قدرت اللہ شہاب، اور ابدال بیلا تصوف کو شعوری طور پر Promoteکرتے ہیں جس سے وہ بھی متاثر نظر آتے ہیں۔
اپنے قارئین کو پیغام دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’لوگوں میں محبتیں بانٹیں۔ ان میں آسانیاں تقسیم کریں۔ مشکلات پیدا نہ کریں سوسائٹی میں عدم برداشت اور درگزر کا مادہ ختم ہو گیا ہے ایک دوسرے کی غلطیوں کو معاف کرنا سیکھیں۔ اسلام کو رواج دیں قرآن میں ارشاد ہے ’’تم لوگوں کو معاف کر دیا کرو۔ کیا تم انہیں نہیں چاہتے کہ تمھارا خدا تمھیں معاف کرے‘‘، یہ سلامتی کی دعا ہے ہم ایک دوسرے کو یہ دعا نہیں دیتے اس لیے ہم سے کوئی محفوظ اور سلامت نہیں رہا۔ ہم بدامنی اور دہشت گردی کے ماحول میں سانس لے رہے ہیں‘‘۔ (۷)
خاقان ساجد کے پسندیدہ ادیبوں اور شاعروں کی ایک طویل فہرست ہے بطور افسانہ نگار ان کے پسندیدہ ادیبوں میں سرفہرست اشفاق احمد ہیں بالخصوص تصوف اور روحانیت کے حوالے سے انہوں نے ان کو بہت متاثر کیا ان کا افسانہ گڈریا لازوال ہے اور ان کی کتاب’’ بابا صاحبا‘‘ کو وہ بہت پسند کرتے۔ ان کے خیال میں ایسا ادب تخلیق کرنا ہرکس وناکس کے بس کی بات نہیں ۔اشفاق احمد کے بعد ان کو منٹو بھی پسند ہے: ’’بلاشبہ وہ ایک عظیم افسانہ نگار تھا ان جیسی مضبوط نثر کم ہی ادیبوں نے لکھی ہے ‘‘۔ (۸)
غلام عباس ان کو اس لیے پسند ہیں کے ان کے افسانوں میں اولڈ ماسٹر کاٹچ ہے۔اس کے علاوہ منشاء یاد اور محمد الیاس ان کو بطور اچھے افسانہ نگار کے پسند ہیں محمد الیاس کا مشاہدہ اور جذئیات نگاری ان کو بہت پسند ہے ۔عالمی ادیبوں میں موپاساں اور چیخوف ان کے پسندیدہ افسانہ نگار ہیں چیخوف کا اختصار اور کفایت لفظی اوراو ہنری اور موپاساں کا لاسٹ ٹوئسٹ ان کو اچھا لگتا ہے جس کو انھوں نے خود بھی اپنے طبع آزاد افسانوں میں آزمایا ہے ہیمنگوے کی تحریر کی سادگی اور امریکی افسانہ نگار ہنری جمیز کی حقیقت نگاری سے وہ خاصے متاثر نظر آتے ہیں سیکنڈے نیوین ممالک میں نٹ ہیمسن اور سلیمیٰ لیگراف نے انہیں بہت متاثر کیا کہتے ہیں کہ: ’’نٹ ہمیسن کا سادہ بیا نیہ متاثر کن ہے جب کہ سلیمیٰ گراف کی روحانیت حیرت زا ہے‘‘۔ (۹) ان کے خیال میں بین الا اقوامی سطح پر ناول نگاری کو ادب میں بہت اہمیت حاصل ہے مگر اردو ادب میں افسانہ زیادہ مقبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کم لکھے گئے اور جو لکھے گئے وہ اس معیار کے نہیں کہ انہیں امریکہ یورپ یا روس میں لکھے گئے عظیم ناولوں کے مقابل فخر سے پیش کیا جا سکے ماسوائے چند ایک ناول کے جن میں قراۃ العین حیدر کا ناول ’’آگ کا دریا‘‘ عبداللہ حسین کا ’’باگھ‘‘ مستنصر حسین تارڈ کا ’’بہاو‘‘ اور محمد الیاس کا ’’برف‘‘۔ بین الااقوامی سطح پر ان کو ناول نگاروں میں کامیو، پائلو کولو اور مارکیز پسند ہیں ۔ شاعری سے ان کو کوئی خاص شغفٖ نہیں کیوں کہ ان کی سوچ و فکر کے مطابق شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے جو ان کو حاصل نہیں تاہم وہ اچھی شاعری کو پسند کرتے ہیں۔ غالب ان کا پسندیدہ شاعر ہے کیوں کہ وہ شاعری کو تین الفاظ میں بیان کرتے ہیں عبارت، اشارت اور ادا، یہ سچ ہے کہ جو شاعر ان تینوں باتوں کو سامنے رکھ کر اپنی شاعری نکھارتے اور سنوارتے ہیں ان کی شاعری مقبولیت کے درجے پر فائز ہوتی ہے ایسے شعراء میں فیض، جوش، احمد فراز، اختر شیرانی، منیر نیازی ، ناصر کاظمی، اور پروین شاکر شامل ہیں ان سب کی شاعری ان کو بہت پسند ہے صوفی شعراء جس میں سلطان باہو، میاں محمد بخش، وارث شاہ اور بلھے شاہ کا کلام ان کی روحانی تسکین کا سبب ہے۔
خاقان ساجد کے افسانوی ادب کا مطالعہ کیا جائے تو اس میں ایک اچھے ناول اور افسانے کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں سرخی سے لے کر زبان و بیان، اسلوب افسانے کی تکنیک موضوع، مواد، خیال پلاٹ کردار مکالمہ نگاری مناظر نگاری، جملے اظہار کے پیرائے، طوالت و اختصار، سادگی، روانی علامت نگاری جیسی سب خصوصیات پائی ہیں۔
ان خصوصیات کے بارے ڈاکٹر طاہرہ سرور لکھتی ہیں:
’’خاقان ساجد کی تحریروں میں تصنع یا تکلف نہیں وہ اپنے قاری کو زندگی کی جن متنوع رنگوں سے بہت سیدھے سادے ناہمواریوں کے خلاف قاری کو ہم خیال بناتے ہوئے چلتے ہیں ان کا ہر افسانہ اپنے اندر معاشرے کی اصلاح کا بہتر سامان رکھتا ہے۔ فوجی افسر ہونے کے ناطے انہیں وطن عزیز کے طول وعرض میں عسکری خدمات انجام دینے کا موقع ملا جس کی بدولت پاکستان کے مختلف علاقوں میں بسنے والے لوگوں کے کلچر اور سوچ سے وہ پوری طرح آگاہ نظر آتے ہیں۔ ان کا انداز بیان ہلکا پھلکا اور لطیف ہے ان کی قوت مشاہدہ حیرت انگیز ہے جسے بے پناہ تخیل کے ساتھ ہم آہنگ کر کے انہوں نے لازوال افسانے تخلیق کیے ہیں بطور خاص ’’ڈالی‘‘، ’’زرخرید‘‘، ’’خالص جان‘‘، باجوڑ کا داؤد اور دھول ایسے نقش گر افسانے ہیں جنہیں آسانی سے بھلایا نہیں جا سکتا‘‘۔ (۱۰)
خاقان ساجد کی افسانہ نگاری کے بارے میں منشا یاد لکھتے ہیں:
’’خاقان ساجد کے اوریجنل افسانے اور افسانچوں میں بہت طنز اور تخلیقی توانائی ہے انہوں نے اپنے اظہار کے لیے حقیقت نگاری کا اسلوب برتا ہے اور ان کا لہجہ دو ٹوک کھرا اور ہر طرح کے ابہام سے پاک ہے افسانے کا ڈرامائی سسپنس آخری جملے تک قائم رہتا ہے جو افسانے کی پذیرائی کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ ان میں وہی منٹو جیسی بے باکی جیسے آخری وقت کے ٹوئسٹ یا پنچ نے فنی حوالے سے اہم اور قاری کی سطح پر دل پذیر بنا دیا ہے ‘‘۔ (۱۱)
خاقان ساجد کی ترجمہ نگاری کو دیکھا جائے تو اس میں بھی مہارت اور فن نظر آتا ہے نہایت خوبصورتی سے موضوع اور مواد کو نقل کیا ہے پڑھتے ہوئے کہیں بھی قاری کو افسانے میں جھول نظر نہیں آتی یا قاری پڑھتے ہوئے اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا قاری کی دلچسپی آخری جملے تک برقرار رہتی ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ سرور لکھتی ہیں:
’’خاقان ساجد نے ترجمہ کرتے ہوئے اردو الفاظ کی موزینت کا خاص خیال رکھا ہے ترجمہ پڑھتے ہوئے قاری کو بامحا ورہ زبان ملتی ہے جس میں ادبی چاشنی موجود ہے انہوں نے انگریزی الفاظ کو اردو میں اس طرح ڈھالا ہے کہ ترجمے کی روانی اور تسلسل میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ بلکہ زیادہ واضع اور بامحاورہ زبان پڑھنے کو ملتی ہے تمام کہانیوں میں تفریح کے ساتھ ساتھ قاری کی تربیت کا پہلو بھی نمایاں ہے اور یہی ان کہانیوں کی ایک مشترکہ خوبی بھی ہے ‘‘۔ (۱۲)
خاقان ساجد عصر حاضر کے بہترین افسانہ نگاروں کی اولین صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں ان کے خیال میں اُردو افسانہ اگر آج پھر سے مقبولیت کی راہ پر گامزن نظر آرہا ہے تو اس کا کریڈٹ تحریر نگاروں اور علامت کاروں کو نہیں جاتا بلکہ راست نوعیت کا افسانہ لکھنے والے افسانہ نویسوں کو جاتا ہے ان کے افسانے نہ عدم ابلاغ کا شکار ہیں نہ گنجلگ ہیں اور نہ ان میں کہانی پن غائب ہے اور نہ ان میں آزاد تلازمہ خیال کے پینترے دکھائے گئے ہیں اسی لیے وہ مقبول ہو رہے ہیں۔
بحیثیت مجموعی خاقان ساجد کی حیات و شخصیت ایک ایسے پانی کے بہاؤ کی طرح ہے جو بظاہر بہت آہستہ ہے مگر اس کی گہرائی اسقدر زیادہ ہے جس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔
۱۔اعجاز احمد نواب،کہانی میگزین،روزنامہ مشرق،لاہور،انٹرویو از،خاقان ساجد،۲۴اگست۲۰۱۱ء
۲۔راقم الحروف استفسار،ازخاقان ساجد،بمقام عسکری ۱۴ ،راولپنڈی،مورخہ۲۴اپریل ۲۰۱۶ء
۳۔ایضاً
۴۔ایضاً
۵۔ایضاً
۶۔اعجاز احمد نواب،کہانی میگزین،روزنامہ مشرق،لاہور،انٹرویو از،خاقان ساجد،۲۴اگست۲۰۱۱ء
۷۔ایضاً
۸۔راقم الحروف استفسار،ازخاقان ساجد،بمقام عسکری ۱۴ ،راولپنڈی،مورخہ۲۴اپریل ۲۰۱۶ء
۹۔ایضاً
۱۰۔ڈاکٹر طاہرہ سرور، عساکر پاکستان کی ادبی خدمات۔ اردو نثر میں، اکامیات، لاہور،۲۰۱۳ء ، ص ۴۶۰
۱۱۔منشاء یاد،فلیپ،آدم زاد
۱۲۔ ڈاکٹر طاہرہ سرور، عساکر پاکستان کی ادبی خدمات اردو نثر میں، لاہور، اکادمیات، ۲۰۱۳ ء، ص۴۶۵
Comments
Post a Comment