اقبالیات


اقبالیات
۱۔اقبال کا تصور عقل و عشق
۱۔عقل 
ؑ عقل کیلئے مختلف الفاظ روزمرّہ میں استعمال ہوتے ہیں علم کو بھی عقل کے مترادف لیا جاتا ہے فکر کو بھی اور خِرَدکو بھی عقل کہا جاتا ہے۔ ان سب کا بنیادی مفہوم ایک ہی ہے اس کے مقابل اور متضاد عشق ہے جسے جذبہ، شوق اور وجدان بھی کہا جاتا ہے۔ کائنات میں ٖفطرت کا اصول ہے کہ کسی چیز کی نشوونما کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے سامنے والے حالات سے لڑ سکے مثلاً مادہ اور روح ایک ہی جہان میں رہتے ہیں مگر اپنے خصائص کی وجہ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اسی طرح ظاہر اور باطن بھی ہیں۔ ابتداء ہی سے فلسفی اور دانشور اس بات کا اظہار کرتے رہے ہیں مثلاً افلاطون کی مثالی دنیا میں بھی وہ حقیقت کے قائل نظر آتے ہیں۔ ان کا زاویہ عقل کی طرف زیادہ ہے اور عشق کی طرف کم ہے کیونکہ وہ جذبہ عشق اور دجدان کو اخلاق کے منافی سمجھتا تھا۔ان سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اقبال عشق کے قائل ہیں مگر ایسا بھی نہیں کہ وہ عقل کے خلاف ہیں وہ عقل کو نا مکمل اور عشق کو مکمل تصوّرکرتے ہیں۔
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین و ظن
بندہء و تخمین و ظن کِرم کتابی نہ بن عشق سراپا حضور علم سراپا حِجاب
ان کی شاعری میں خطابیہ اور ڈرامائی انداز چلتا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں کہ ہم عشق اور علم دونوں کے مالک تھے لیکن کچھ معلوم نہیں کہ عشق کی جوہردارتلوار کو ن اڑالے گیا؟علم کے ہاتھ میں خالی میان رہ گیا جو کچھ کام نہیں دے سکتا۔

عشق کی تیغِ جگردار اڑالی کس نے علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔
علم مقامِ صفات،عشق تماشاِذات عشق سکون و ثبات عشق حیات و ممات
علم ہے پیدا سوال،عشق ہے پنہاں جواب
علم اور عقل کا بنیادی کام ہے فطرت کی تسخیر۔ یہ بات صرف کسی فلسفی تک محدود نہیں بلکہ قرآن مجید میں فطرت کی تسخیر کا ذکر موجود ہے یہ دنیا کی رنگینی سب علم کی مرہونِ منت ہے دنیا کے نظام کو چلانے کیلئے علم اور عقل ضروری ہیں اور دنیاوی ترقّی کے لئے ناگزیر قرار دے دیا ہے۔ اقبال مغربی ترقّی کے مخالف نہیں تھے بلکہ ان کی ترقّی کے معترف تھے لیکن متوازن ترقّی کے قائل تھے اعتدال پسند تھے۔
اقبال کہتے ہیں ۱۰۰فیصدی عقل پر چلنامضرہے۔ڈاکٹر یوسف حسین خان لکھتے ہیں کہ اس سے حقائق اشیاء کا مکمل علم اور بصیرت حاصل ہوتی ہے پھر یہ کہ انسانی زندگی میں جتنا اس کا اثر ہے عقل کا اثر اس کاعشر عشیر بھی نہیں۔زندگی کا ہنگامہ اسی سے ہے اگر دل بھی عقل کی طرح فرزانہ ہوتا تو جینے کا لطف باقی نہ رہتا علامہ فلسفی بھی تھے جس کی وجہ سے وہ سوچتے بھی تھے غوروفکر بھی کرتے تھے تفکر اور منطق کے قائل تھے دوسری طرف ایک شاعر بھی ان میں موجود تھا اور شاعر کا تعلق چونکہ جذبات کے ساتھ ہوتا ہے، شوق و وجدان کے ساتھ ہوتا ہے بظاہر منطق تخیّل اور جذبہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ شاعر باہر کے ماحول اور سماج سے مواد حاصل کرتا ہے اور پھر اپنے اندر اسکو نیا رنگ ڈھنگ ہا طرز کا لباس پہنا کر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔علامہ پہلے کچھ اور نظریات کے حامی تھے بعد میں کچھ اور نظریات کے حامی ہو گئے ابتداء میں باطنی داخلی اور اندرنی طور پر کشمکش کا شکار رہے،علامہ کبھی عقل کے ذریعے زندگی کے اسرارورموز کو کھولنے کی کو شش کرتے ہیں لیکن
اسی کشمکش میں گزریں میری زندگی کی راتیں کبھی سوزوساز رومی کبھی پیچ و تاب رازی
بانگ درا میں ایک نظم عقل و دل ہے جس میں در حقیقت پورا منظر نامہ عقل اور دل اور علم اور عشق فکر اور وجدان کے حوالے سے سمو کر رکھ دیا ہے اس نظم میں مکالماتی انداز ہے دل کی اہمیت اور عقل کی اہمیت بیان کی گئی ہے اقبال عقل کو زندگی کے خادمو ں میں شمار کرتے ہیں مادی اور مقامی دنیا کے جتنے بھی مسائل ہیں ان سب کو حل کرنے میں ہماری مدد گار ثابت ہوتی ہے اس لیئے زندگی کو بہتر بنانے میں معاون ہے انسان اور حیوان میں تمیز کرتی ہے اور خارجی فطرت کی تسخیر کرتی ہے علامہ نے یہاں پر ہی مغرب کی تعریف کی ہے جو انہوں نے اپنے عقل سے ترقّی کی ہے جبکہ مشرق اس سے خالی ہے،صرف روحانیت ہی سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ عقل بھی زندگی کے مسائل کو حل کرنے اور ترقّی کیلئے از بس ضروری ہے۔
فطرت کو خرد کے رو بروکر ،تسخیرِمقام رنگ و بو کر بے ذوق نہیں ہے گرچہ فطرت ،جو اس سے نہ ہوسکا وہ تو کر
عقل عیّار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے عشق بیچارہ نہ ملّا ہے نہ زاہد نہ حکیم
فلسفہ خودی کیلئے عقل معاون ثابت ہوتی ہے آخر میں ان دونوں کا اتصال ہوجاتا ہے یہ مل جاتے ہیں دونوں ایک ہو جاتے ہیں علم اور عقل مفید ہیں
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
عقل میں جوش نہیں پایا جاتا وہ جوش سے محروم ہوتی ہے اور اس کادارومدار۱۰۰فییصدی حواس ظاہری سے ہوتا ہے صرف موجودات سے تعلق رکھتی ہے جو چیز موجود نہ ہو اس سے انکار کرتی ہے۔نٹشے خدا کے وجود سے منکر تھا۔
عقل کی اقسام
عقل کی دو اقسام ہیں۔
۱۔جزوی عقل ۲۔عقلِ کلی
اقبال کہتے ہیں کہ دراصل عقل کلی ،خودی یا عشق ایک ہی چیز ہیں عقلِ کلی میں ادراک کے ساتھ ساتھ ذوقِ تجلّی بھی موجود ہوتی ہے خودی کا پہلا مرحلہ عقل کے بغیر طے نہیں ہو سکتا اطاعت الہٰی کی تکمیل عقل کے بغیر ناممکن ہے۔
ہر دو بہ منزل رواں ہر دور امیرِ کاررواں عقل بہ حیلہ می برد عشق برد کشاں کشاں
دونوں رہبر ہیں دونوں رہنما ہیں ہے ذوقِ تجلّی بھی اسی خاک میں پنہاں
غافل تو نرا میراصاحبِ ادراک نہیں ہے


۲۔عشق
خودی بذاتِ خود ایک عشق ہے عشق کا فلسفہ اقبال نے بنیادی طور جلال الدین رومی سے لیا ہے اور اسے سو رنگوں میں باندھا ہے۔ اقبال کو عشق سے عشق ہے گیا اللٰہ سے بھی مانگتے ہیں کہ یا اللٰہ میرے اندر فقر پیدا کر،جنوں پیدا کر
عشق کی تیغِ جگردار اڑالی کس نے علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی
خرد کی گتھیاں سلجھاچکا میں میرے مولٰی مجھے صاحبِ جنوں کر
عقل گو آستاں سے دور نہیں اس کی تقدیر میں حضور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن یہ وہ جنٰت ہے جس میں حور نہیں
خِرَد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں تیرا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں
مولانا روم نے فرشتوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ عقلِ کل کی متنوّع شکلیں ہیں
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبرائیل اگرہو عشق سے محکم تو صورِاسرافیل
اقبال کہتے ہیں کہ منزل دونوں کی ایک ہے لیکن اس میں نقص یہ ہے کہ عقل منزل کی طرف رہنمائی کرتی ہے مگر اکثر رستے میں بھٹک جاتی ہے
خرد سے راہرو روشن بصر ہے خرد کیا ہے؟چراغِ راہ گزر ہے
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا چراغِ راہ گزر کوکیا خبر ہے
اقبال کہنا چاہتے ہیں تاریک رستے میں سفر کرنے والوں کے لئے روشنی علم کرتا ہے مگر یہ اس منزل پر نہیں پہنچا سکتا جو انسان کا اصل مقصد ہے۔ اقبال نے ایک مارکسی فلاسفر لینن گراڈ کے نام ایک نظم خدا کے حضور کے نام سے بھی لکھی ہے۔نظریات بدلتے رہے مغرب میں ایک اصطلاح وجود میں آئی کائنات کی سچائی کی جگہ ایک سچائی کے نظریے نے لے لی کیو نکہ علم کے نظریات متغیّر ہیں۔
میں کیسے سمجھتا کہ توں ہے یا کے نہیں ہے ہر دم متغیّر تھے خرد کے نظریات
ابلیس بھی علم اور خبر کی وجہ سے وہ نہیں سمجھ سکا کیونکہ اس کے پاس جذبہ اور جنوں اور عشق نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے حکمِ خداوندی سے انکار کیا۔اقبال کو اپنے زمانے کے لوگوں اور جوانوں سے بھی شکایت تھی۔

زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعلِ راہ کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحبِ ادراک
تیرے دشت و در میں مجھکو وہ جنوں نظر نہ آیا کہ سِکھا سکے رہ رسم کارسازی
عقل محض تصورات کا بت کدہ بنا سکتی ہے لیکن زندگی کی صحیح رہنمائی اس کے بس کی بات نہیں۔ علامہ نے روایتی شاعری کے بر عکس کلام تخلیق کیا ہے یہی وجہ ہے کہ
حکیم میری نواوؤں کا راز کیا جانا ورائے عقل ہیں اہلِ جنوں کی تقدیریں 
عقل و دل و نگاہ کا مرشد اوّلین ہے عشق عشق نہ ہو تو شرح و دین بت کدہ تصورات
انسانی زندگی میں کئی ایسے لمحات آتے ہیں جہاں اپنی پوری عقلی تگ و دو کے باوجود کامیابی حاصل نہیں کر سکتا اور مایوس ہو جاتا ہے جبکہ عشق کے ہاں ایسی صورتحال نہیں
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن تارِرفو
اقبال کا تصور عشق 
اقبال کے تصور عشق میں بہت وسعت ہے ۔ عشق کا دوسرا نام ہی اسلام ہے اسلام عشق سے پیدا ہوا ہے جب علم و عشق کا اشتراک ہو گا تو یہ پرانی دنیا دوبارہ جوان ہو سکتی ہے اگر دونوں مل کر کام کریں گے ۔بانگ درا کی نظموں میں ایک نظم دردِ عشق، عشق اور موت ہے جو اقبال نے ٹینی سن کی ایک نظم عشق ہرجائی کا ترجمہ کیا ہے جس میں ایک ترکیب عشق کو آزاد دستور وفا رکھنا استعمال کی ہے۔علامہ کی نظر میں عشق کی ابتداء ہے نہ انتہا ہے اور وہ عشق کی انتہا کے قائل نہیں عشق کی جب انتہا آتی ہے تو انسان کے آگے بڑھنے کا جذبہ اور جستجو مانند پڑجاتا ہے
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں میری سادگی دیکھ میں کیا چاہتا ہوں
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلّی اللٰہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
پیامِ عشق : عشق ایک انقلاب آفرین قوّت ہے عشق ایک فعالی قوّت ہے ایسی قوّت نہیں جس پر کام کیا جائے
تو ہی نادان چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاج تنگیِ داماں بھی ہے
سَر عبدالقادر کے نام نظم میں اقبال کہتے ہیں
شمع کی طرح جیءں بزم گۂ عالم میں خود جلیں دیدۂ اغیار کوبینا کردے
ایک قطعہ ہے۔۱،تمام ہستی کو خلاق وجود عشق نے دیا ہے۲۔عشق کو جنوں سمجھنے والا رمزِ حیات سے بیگانہ رہتا ہے۔۳جمادو نباتات حیوان و انسان میں نظم و نسق بصیرت اور ترقّی عشق کی بدولت ہوتی ہے۔۴عشق کو اس تذبذب سے رابطہ نہیں کہ آرزو برآئے یا نہ آئے اس کی فطرت ہی شہید سوزوساز آرزو ہوتا ہے۔
صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ
خلیفہ عبدالحکیم :اقبال کے نذدیک میلانِ بقاء و ارتقاء کا نام عشق ہے،جو ہر لمحہ احوال نو کاشائق ہے اسے ایک حالت پر قائم رہنا پسند نہیں ہر لمحہ جہانِ نو پیدا کرنا اسکی فطرت میں داخل ہے عشق حسن سے پیدا ہوتا ہے اور خود حسن آفرینی کرتا ہے حسن و عشق ایک دوسرے کی علت اور معلول ہیں۔
ضربِ کلیم کی ایک نظم علم و عشق ہے جس میں اقبال کچھ یوں فرماتے ہیں
عشق کے ہیں معجزات سلطنت فقرو دین عشق کے ادنٰی غلام صاحبِ تاج و نگیں
عشق مکان و مکین عشق زمان و زمین عشق سراپا یقین اور یقین فتح ٰیاب 
*****
۲۔اقبال کا مردِ مومن کاتصوّر
کلامِ اقبال میں جگہ جگہ مردِ مومن مختلف اسماء مختلف ناموں کیساتھ نظر آئے گامگر ان کا معانی اور مفہوم ایک ہی وہ مردِ کامل جس کی خودی مستحکم ہو چکی ہو ۔جو نیابت الٰہی کا فریضہ دے رہا ہو اس اصطلاح کو مختلف نام دیئے ہیں قلندر، فقیر،مردِ حق، مردِ مسلمان، مردِ مومن، مردِ کامل، انسانِ کامل یہ دراصل سبھی ایک ہی نام ہیں۔
مردِ مومن کا تصوّر اور اس کے ماخذات
کچھ مغربی فلاسفر اور کچھ مشرقی فلاسفر اس میں شامل ہیں۔مغربی فلاسفرز میں نٹشے کا نام سرِفہرست ہے ان کا کہنا ہے کہ اقبال نے مردِ مومن کا تصور نٹشے سے مستعار لیا ہے ای جی براؤن کے بقول اقبال کے تمام فلسفہ کی بنیاد پوری کی پوری نٹشے سے مستعار ہے اور ان کا انسانِ کامل وہ نٹشے کے فوق البشرکا مثنٰی ہے۔مغربی ناقدین یا تو اقبال کو سمجھ نہیں سکے یا پھر ان کا تعصب شامل ہے حقیقت یہ ہے کہ نٹشے کے سپرمین اور اقبال کی مردِ مومن میں زمین آسمان کا فرق ہے سپر مین اخلاقی پابندی کا قائل نہیں ، معاشرے میں عدل و انصاف، مشاورت ، ہمدردی، نرمی کا قائل نہیں ہے صرف قوّت اور اقندار کا حصول ہی اس کامطمع نظر ہے اس کا ہدف قوت بالجبر ہے اس میں ہوس جو الارض پائی جاتی ہے ۔روحانیت ، ضمیر گناہ و ثواب ، موت و حیات ، دوزخ و جنّت ،جزاو سزا ، عدل و انصاف جیسی خصوصیات سے یہ عاری ہے،واضع الفاظ میں وہ کہتا ہے کہ یہ انسان کو کمزور کرنے والی چیزیں ہیں اگر یہ چیزیں ہوں گی تو طاقت نہیں ہو گی ان کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہئے خدا کا کوئی وجود نہیں وہ اللٰہ کامنکر تھا نیکی اور عدل کو تباہ کر دو میری خاطر تباہ کر دو اور خدامر گیاہے ( نعوذبااللٰہ) تاکہ فوق البشر زندہ رہے وہ انسان پر رحم کے سبب مر گیا ہے لہٰذا رحم سے خبردار ہو جاؤ۔
ڈاکٹر ایس ایم منہاج الدین اپنی کتاب افکارو تصوّراتِ اقبال میں کچھ یوں رقمطراز ہیں: نٹشے کا فوق البشر لطیف احساسات اور اعلٰی اخلاقی اقدار سے عاری ایک ظالم و جابر تشدّد پسند ہے جس کے نذدیک زندگی کا مقصدحصول اقتدار کے سوا کچھ اور نہیں،،
موازنہ کریں تو اقبال کامردِ مومن نٹشے کے فوق البشر کے بالکل متضاد ہے اس سے بلند ترین خصوصیات کا مالک ہے خدا کا منکر نہیں اخلاق کے حوالے سے بلندسطع پر ہے طاقت اور سختی کیساتھ ساتھ نرمی اور رحم کا جذبہ بھی اس کاخاصہ ہے مردِ مومن کو اقتدار کی ہوس نہیں ہوتی خلفائے راشدین کی مثالیں اور دوسرے مشاہیر کی مثالیں ہمارے سامنے عملی نمونہ ہیں۔ ہماری تاریخ میں واضع مثالیں ملتی ہیں جہاں مسلمانوں نے صرف اللہ کی خاطرجنگیں لڑیں بنا کسی مادی فائدے کے۔
ان مثالوں سے واضع ہے جاتا ہے کہ دونوں کے درمیان ایک وسیع خلیج پائی جاتی ہے صرف مماثلت اتنی سی ہے کہ طاقت کا عنصر دونوں میں موجود ہے کیونکہ اقبال بھی طاقت کے قائل ہیں ،، ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات،،مگر قوت باالجبر کے مخالف ہیں اندھی طاقت کو رد کرتے ہیں انسانِ کامل کا تصوّر کافی قدیم ہے یہ سلسلہ افلاطون یا اس سے بھی پہلے کا ہو سکتا افلاطون کے مکالمات میں انسانِ کامل کا پتہ چلتا ہے ان کے ملفوظات میں اس کے ثبوت ملتے ہیں۔ افلاطون کی اصطلاح میں اسے فیلسوف کہتے ہیں (مردِکامل)
افلاطون کاشاگرد اور مقدونیا کے بادشاہ فلپ کے بیٹے سکندر اعظم کا استادارسطوتھا ۔ جس ک بارے میں مشہور ہے کہ اس نے کم و بیش ۵۰۰ کے لگ بھگ کتابیں لکھیں۔ ارسطو کے ہاں بھی اک مثالی انسان کا تصور پایا جاتا ہے دونو ں کی خصوصیات طاقت اور نرمی کے لحاظ سے مشترک ہیں۔اقبال کے مردِ مومن میں یہ وصف پایا جاتا ہے کہ وہ کسی کا احسان نہیں لیتامنّت غیر اٹھانے کا قائل نہیں ہے ارسطو کامثالی انسان بھی کچھ یوں ہی کرتا ہے۔
اروبند گھوش لکھتا ہے: مردِ کامل کی اصطلاح انہوں نے بھی استعمال کی ہے لیکن گھوش کا مردِ کامل یک رخہ ہے اس میں صرف روحانیت کا عنصر پایا جاتا ہے وہ طاقت کا قائل نہیں وہ بااخلاق انسان ہے۔
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو رزم ہو یا بزم پاک دل و پاکباز
گھوش اور اقبال کے تصور میں صرف اتنا فرق ہے کہ گھوش کے ہاں صرف روحانیت پائی جاتی ہے جبکہ اقبال کے ہاں روحانیت اور طاقت دونوں ایک ساتھ پائی جاتی ہیں۔بہت سے مسلمان مفکرین کے ہاں ایسے انسان کا تصور ۰پایا جاتا ہے ان میں شیخ محی الدین ابنِ العربی، شیخ عبدالکریم الجیلی، جلال الدین رومی اور شخ محمود خبستری اپنے اپنے طور پر تصور پیش کرتے ہیں۔ان کے نذدیک حضوراکرمﷺ کی ذات کامل انسان کا مثالی نمونہ ہے جن لوگوں نے ۱۰۰ فیصدی تتبع رسولﷺ کی وہ مردِ مومن ہیں اقبال کہتے ہیں کہ مردِ مومن میں یہ خصوصیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ نا ممکنا ت کو ممکنات میں بدل سکتا ہے۔
آج بھی جو ہو ابراہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِگلستاں پیدا
علامہ کی نظر میں یہ مردِ کامل تھے کیونکہ یہ سب یقین کامل تھے بظاہر ہم ان کو معجزہ کہتے ہیں۔
عبدالکریم الجیلی کے الفاظ میں انسان بجائے خود ایک عالم ہے جو خدااور فطرت دونوں کا مظہر ہے انسانی ہستی ذاتِ باری کی خارجی شکل ہے بغیر انسانی وجود کے ذاتِ مطلق اورکائناتِ فطرت میں رابطہ نہیں قائم ہو سکتا۔ الجیلی نے وضاحت کے ساتھ یہ تصوّر پیش کیا ہے انسان ان وحدتوں میں اتصالی کڑی کا حکم رکھتا ہے ،،انسانِ کاملِ ،، کا تخلیقِ کائنات کا اصل مقصد ہے ذاتِ انسانی کے توسط سے ذاتِ مطلق خود اپنا مشاہدہ کرتی ہے اس لئے کہ سوائے انسان کے کسی اور مخلوق میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ صفاتِ الٰہی کی مظہر بن سکے حضرت محمدﷺ نے انسان کامل کا اعلٰی ترین نمونہ دنیا کیلئے پیش کیا ۔ مردِ کامل عرض کی حدود سے نکل کر جوہر کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے الجیلی اور اقبال میں ۹۰فیصد تک اتّفاق پایا جاتا ہے
خاک و نوری نہاد،بندۂ مولٰی صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
مردِ مومن کی نگاہ کایا پلٹ ہوتی ہے
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
مردِ مومن کی خصوصیات
۱۔ تجدید حیات:
زندگی کو نیا بنانا، ارتقاء ہونا، اس کو آگے بڑھانا خودی کا نظریہ اصل میں تجدید حیات کا ہی نظریہ ہے یہ فریضہ اس دنیا میں صرف اور صرف مسلمان ہی ادا کرسکتا ہے اس لئے اللٰہ کی پابندی کے علاوہ اس پر کوئی اور پابندی نہیں ہوتی
تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکامِِ الہٰی کا ہے پابند
جو صحیح بندۂ مومن ہے وہ صرف احکامِ الہٰی کا پابند ہے اس کے علاوہ وہ کسی کا پابند نہیں ہوتا
مہرو مہ انجم کا محاسب ہے قلندر ایّام کا مَرکَب نہیں راکب ہے قلندر
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
۲۔ جذبہ عشق:
در اصل عشق زندگی کا ایک نصب العین ہوتا ہے اس کیلئے بندے میں سچی لگن ہونی چاہیے "دل و نگاہ کی مسلمانی" یہ ہی دراصل عشق ہے جسے اقبال نے مستیِ کردار کہا ہے۔
وہ مردِ مجاہد نظر آتا نہیں مجھکو ہو جس کے رگ و پے میں فقط مستیِ کردار
سیّد وقار عظیم کہتے ہیں " اقبال نے کسی اندرونی کیفیّت ، کسی ولولہ انگیزمحرک اور زبردست فعالی قوّت کو عشق کا نام دیا ہے یہی وجہ ہے کہ مردِ مومن کی عملی زندگی میں اس جذبہ محرک کو سب سے زیادہ جگہ دی گئی ہے۔
مردِ خدا کا عمل عشق صاحبِ فروغ عشق ہے اصل حیات موت ہے اس پر حرام
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللّہ کی برہان
۳۔مسلمل کوشش:
علامہ مسلسل کوشش کو عملِ پیہم بھی کہتے ہیں۔ انہو ں نے اس کیلئے مختلف تراکیب استعمال کیں ہیں مثلاً،، اشہپِ دوراں،، فروغِ دیدۂ امکاں،،
مردِ مومن اشہپِِ دوراں پر سوار ہے وہ ایک بے چین روح ہے اسکو آرام نہیں ہوتا اسکی بے تابی بڑھتی جاتی ہے مسلسل کوشش کا ہونا ضروری ہے بنا کوشش کے کامیابی کا حصول ناممکن ہوتاہے مردِ مومن اس کا رزار ہستی میں ہر وقت شر کے مقابلے میں ایک چٹان کے طور پر اس کا مقابلہ کرتا ہے یہی چیز ہے اسے مائل عمل کرتی ہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنم بھی یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
عمل فعل کو کہا جاتا ہے اور فعل کا مطلب کام ہے۔ 
یقیں محکم ، عمل پیہم محبت فاتحِ عالم جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں

پختہ یقیں پھر مسلسل کو شش ہی کامیابی کا ثبوت ہے اقبال کہتے ہیں کہ فطرت کامقابلہ کرنا مردِ مومن کا وطیرہ ہوتاہے۔
فطرت کے تقاضوں پے نہ کر راہِ عمل بند مقصودہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا
۴۔ جلال و جمال
بظاہر یہ دو متضاد کیفیتں ہیں ایک ہی انسان کے اندر یہ دونوں کیفیتں یکجا پائی جاتی ہیں مردِ مومن میں یہ دونوں کیفیات پائی جاتی ہیں بباطن دونوں ایک ہیں مردِ مومن میں دونوں پائی جاتی ہیں اس کے اندر ایک دھڑکتا ہوا دل ہوتا ہے وہ صنم نہیں ہوتا ایک درد آشنا دل بھی اس کے اندر موجود ہوتا اور یہ فطری ہوتا ہے۔
مصافِ زندگی میں سیرتِ فولاد پیدا کر شبستانِ محبت میں حریروپرنیاں ہو جا
گزر جا بن کے سیلِ تندرو کوہِ بیاباں سے گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا ء دل فریب اس کے نگۂ دل نواز
مردِ مومن کی امیدیں قلیل ہوتی ہیں اور مقاصد عظیم ہوتے ہیں
ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نرم رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
۵۔توکل بااللّہ
توکل با اللّہ اور عزم صمیم کا مالک ہوتا ہے یہ دونوں خصوصیات ایسی ہیں جن کی بنیاد پر اسے کسی چیز سے ڈر نہیں ہوتا مردِ مومن میں ایک آفرین قوت پیدا کر دیتا ہے۔ 
طاہر فاروقی اپنی کتاب سیرتِ اقبال میں لکھتے ہیں"مردِ مومن باوجود غلبہ و سلطانی، قوت و شوکت اور جاہ و جلال کے معمولاتِ زندگی عطا کرنے اور یگانہ و بیگانہ سے معاملہ کرنے میں سراپا رحمت و شفقت ہوتا ہے مومن صفاتِ قہاری و غفاری کا جامع ہوتا ہے۔ عملی دنیا میں دونوں یکساں اور مفید ہیں۔ اس میں شدت اور نرمی دونوں پائی جاتی ہیں لیکن دونوں کا مصرف و عمل جداگانہ ہوتاہے لیکن اس کی محبت اور قدورت سب خدا کیلئے ہوتی ہے اس کا ہر اقدام دونوں کے مفاد ، رفاہِ عامہ اور خدمتِ خلق کیلئے ہوتا ہے |"
۶۔بے خوفی، صداقت اور سچائی
مردِ مومن کبھی جھوٹ نہیں بولتا اسکو خوفِ خدا کے علاوہ کسی کا خوف نہیں ہوتا وہ نڈر ہوتا ہے
آئینِ جواں مرداں حق گوئی بے باکی اللّہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
مردِ مومن نہ تو بادشاہِ وقت سے ڈرتا ہے اور نہ شر کی قوّتیں اسکا راستہ روک سکتی ہیں
ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق یہ رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
۷۔فقرو استغناء
ؔ نہیں فقرو سلطنت میں کوئی امتیاز ایسا یہ سپاہ کی تیغ بازی وہ نگۂ کی تیغ بازی
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے وہ فقر جس میں بے پردہ ہے روحِ قرآنی
عزیز احمد لکھتے ہیں "اقبال کے انسانِ کامل کی نمود فقر ہی میں ممکن ہے اور فقر کی کئی خصوصتیں ہیں جن کا انہوں نے بار بار تذکرہ کیا ہے ایک بڑی خصوصیت "یقین"ہے یہ اپنے وجدان پر ایک طرح کااندرونی پختہ عقیدہ ہے یہ وہی صٖٖفت ہے جس کو مذیبی اصطلاح میں ایمان کہتے ہیں انسانِ کامل کی نمود کے ساتھ آزادی لازم آتی ہے لیکن اس آزادی کا ذریعہ یہی ایمان ہے یہ یقین تقدیرِ الہٰی کو بدل سکتاہے۔
یقیں پیدا کر اے ناداں، یقیں سے ہاتھ آتی ہے وہ درویشی جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
مردِ مومن اپنا رزق خود تلاش کرتاہے گدائی اس کیلئے منع ہے وہ زمانے کا شاکی نہیں ہوتا۔
جو فقر ہوا تلخیِ دوراں کا گلہ مند اس فقر میں باقی ہے بوئے گدائی
اقبال نے فقرِ عریاں ایک اصطلاح استعمال کی ہے اقبال کہتے ہیں کہ آپ ؐ نے جو جنگیں بدروحنین کی لڑیں یہ فقرِ عریاں تھا۔
فقرِ عریا ں گرمئیِ بدروحنین فقرِعریاں بانگِ تکبیرِ حسینؓ
اس ایم منہاج الدّین لکھتے ہیں "یہی فقرِ عریا ں ہے جس کیلئے اقبال نے عشق کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے عشق کی ایسی اندرونی کیفیت اور ولولہ انگیز متحرک قوت ہے جو مردِمومن کو حوصلہ شکن حالات میں بھی پر عزم رکھتی ہے اور جدوجہد جاری رکھنے پر اصرار کرتی ہے
صدقِ خلیل بھی ہے عشق صبرِ حسینؓ بھی ہے عشق معرکۂ وجود میں بدرو حنین بھی ہے عشق
مردِ کامل کی نمود خاص مواقعوں پر ہوتی ہے جب انسانی تاریخ کسی خاص منزل کسی موڑ پر پہنچ جاتی ہے تب یہی ضرورت ہے کہ مردِ مومن کی نمود ہے۔ یہ حرکی چییز ہے جب کوئی مردِ کامل آنا چاہیے تو یہ سلسلہ چلتا رہنا چاہیے۔علامہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ستاروں کی آنکھیں ابھی اس انتظار میں رہتی ہیں کہ کب کوئی مردِ کامل ظاہر ہو۔ مردِ کامل سے ستارے بھی ڈرتے ہیں ان پر بھی سراسیمگی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدار ور پیدا
مردِ مومن زندگی کے ہر پہلو میں دوسرے افراد سے مختلف ہوتاہے
میسّر ہو کسے دیدار اس کا کہ ہے وہ رونق محفل کم آمیز
کہتے ہیں فرشتے کہ دل آویز ہے مومن حوروں کو شکایت کہ کم آمیز ہے مومن
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
اسلامی تاریخ میں مجاہدین اسلام نے بہت سے محیّرالعقول کارنامے سر انجام دیئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اس ضمن میں اُن کی نظم "طارق بن زیاد"(جو جاتح اندلس تھے اور اندلس پر مسلمانوں کی حکومت سات آٹھ سو سال تک قائم رہی)میں اقبال کہتے ہیں۔
یہ غازی تیرے پراسرار بندے جنہیں تو نے بخشی ہے ذوقِ خدائی دونیم ان کی ٹھوکر سے صحراو دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذّت آشنائی شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن نہ مالِ غنیمت نہ کشورکشائی
دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بحر ظلمات میں دوڑادئیے گھوڑے ہم نے

*****









۳۔اقبال کا تصوّرِ اشتراکیت
اشتراکیت کو انگریزی میں کیمونزم کہا جاتا ہے یہ ایک نظا مِ حکومت کا نام ہے حکومت کی ایک قسم ہے۔ قدیم زمانے میں بادشاہی نظام تھا یہاں تک کہ یورپ میں بھی بادشاہت کافی عرصہ تک رہی۔ اشتراکیت کے متوازی دوسرا نظام سرمایہ دارانہ نظام تھا کارخانہ داری ا، زمینداری اور جاگیرداری پر مشتمل تھاجو کہ یورپ اور مغرب اس کے زیرِ سایہ تھے اشتراکیت بنیادی طور پر سرمایہ داری نظام کے خلاف ایک بغاوت تھی اور اس کا روحِ رواں اور بانی کارل مارکس تھااشتراکیت کو اس نے پوری طرح منضبط کرنے کی کوشش کی اور کافی حد تک کامیاب بھی رہا۔اشتراکیت پر مبنی اس کی کتاب کا نام ہے "THE DAS CAPITAL" اس کتاب کو اشتراکیت کا صحیفہ کہا جاتاہے۔اردو میں اس کتاب کا نام "سرمایہ"ہے۔اشتراکیت کا تھیم تھا کہ سرمایہ درانہ نظام چوری اور ڈاکے کی بدلی ہوئی شکلیں ہیں اور غلام یا مزدور کا استحصال کیا جاتاہے تو اس میں نچلے طبقے کو اکسایا گیا کہ آپ امیر طبقے کے خلاف بغاوت کریں اور ان سے اپنے حقوق چھین لیں گویا اس نظام نے انقلاب کو دعوت دی۔ اصل میں اشتراکیت کا نظام اقتصادی اور معاشی نظریہ ہے اس کا مطمع نظر اقتصادی اور معاشی حوالے سے ہے علامہ کا شعر ہے
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
کارل مارکس البانوی ماہر معاشیات اور فلاسفر تھا اس کے بعد لینن اور انگل نے مل کر ایک مربوط نظامِ حکومت پیش کیا انہوں نے کہا کہ اپنے حقوق آہستہ آہستہ نہ لیئے جائیں بلکہ بغاوت کا راستہ اپنایا جائے سماجی طبقات کاسلسلہ اشتراکیت نے پیدا کیا دو ہی طبقے ہیں ایک امیر اور دوسرا غریب ہے ایک کو کچھ نہیں کرنا پڑتا اور دوسرے کو سب کچھ کرنا پڑتا ہے دولت کی مساویانہ تقسیم ہونی چاہئے اس میں مادیت پائی جاتی ہے روحا نیت کا عمل دخل اس میں نہیں۔ترقی کیلئے ضروری ہے کہ معاشرہ الحاد پر مبنی ہومعاشرے کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہئے قدیم روحانیت قدیم سیاست قدیم معاشیات ان سب کے خلاف بغاوت ہونی چاہئے نظام کہنہ کو ملیا میٹ کر دینا چاہئے اشتراکیت ماضی کی تفہیم بھی نہیں کرتے۔اشتراکیت ان حیلوں بہانوں کے خلاف ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں کیے جاتے ہیں کہ بتدریجی عمل سے حقوق حاصل کئے جائیں۔ غریب طبقے کو ان لوگوں نے اکسایا نتیجتاً ۱۹۱۷ء ؁ میں یہ بغاوت روس میں انقلاب کا باعث بنی روس میں قدیم نظام کا خاتمہ ہو ا اور اور لینن کی سربراہی میں اشتراکیوں کا حکومت پر قبضہ ہو گیا۔آج بھی دنیا میں نچلے طبقے کی تعداد زیادہ ہے اشتراکیت کا یہ نعرہ ان لوگوں کیلئے بہت اہم تھالہذا وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انقلاب کا سبب بنے۔یہ واحد نظام تھا جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا بعد میں جیسے جیسے اس نظام کی خرابیاں سامنے آئیں تو دنیا نے اس کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ابتدا میں اس میں مساویانہ نظام کی رنگینی شامل تھی اس سے سب متاثر ہوئے اور اقبال بھی اس سے متاثر ہوئے۔اقبال شروع ہی سے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف تھے اس سلسلے میں ان کی ایک نظم بھی ہے جس میں کہہ رہے ہیں کہ یہ زمین اللہ کی ہے اس پر انسانوں کی ملکیت نہیں ہے اور نہ ہی ان کا اس پر حق ہے ۔ اقبال پر شروع میں الزام لگا کہ وہ اشتراکی ہیں کیونکہ انہوں نے کارل مارکس اور لینن اور اشتراکیت کی اپنی فارسی نظموں میں تعریف کی ہے آج عہدِجدید میں یہ نظامِ حکومت فلاپ ہو چکا ہے۔اقبال نے فارسی نظموں میں اشتراکیت کی اہمیت کا ذکر کیا ہے ان نظموں میں محاورہ، مابین ،حکیم ،فرانسوی،آگسٹن، کومٹ و مردِ مزدور وغیرہ شامل ہیں۔
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
بعض لوگوں نے اقبال کو مسلم سوشلسٹ بھی کہا۔ بالِ جبرائیل میں علامہ کی ایک نظم ہے "الارض للہ"
پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب
کون لایا کھینچ کر یہ پچھم سے بادِسازگار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نورِ آفتاب
کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب
دِہ خدایا یہ زمین تیری نہیں میری نہیں
تیرے آباء کی نہیں تیری نہیں میری نہیں


علامہ تخریب اور تعمیر کے حامی تھے وہ سمجھتے تھے کہ جب تک تخریب نہیں ہو گی تب تک تعمیر کا ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔روسیوں نے بھی پرانی چیزیں ختم کردیں اور نئی چیزیں لے آئے اقبال نے کہا تھا کہ یہ نظام مزید نہیں چل سکے گا کیونکہ اس میں مادیت ہے اور روحانیت سے خالی ہے اور اقبال روحانیت کے قائل تھے۔ روحانیت کیلئے مذہب کا ہونا ضروری ہے مذہب خواہ اسلام ہو یا کوئی اور۔ سکھوں کے روحانی پیشوا بابا گورونانک اس کی زندہ مثال ہیں۔اقبال کہتے ہیں کہ "لا"سے "اللہ "کی طرف سفر کرے گا تو یہ نظام آگے بڑھے گا۔یہی وجہ ہے کہ اقبال اشتراکیت میں اس چیز کو پسند نہیں کرتے تھے۔"لینن خدا کے حضور"میں اقبال کہتے ہیں کہ
تو قادرِ عالم ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہِ مزدور کے اوقات کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ دنیا ہے تیری منتظراے روزِ مقافات
اقبال کی نظم فرمانِ خدا (فرشتوں کے نام) اس نظم میں علامہ نے اشتراکیت کو سپورٹ کیا ہے
اٹھومیری دنیا کے غریبوں کو جگادو کاخ افراد کے درودیوار کو ہلادو
گرماؤغلاموں کا لہو سوزِ یقین سے کنجشک فرو مایہ کو شاہین سے لڑا دو
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ جو نقش کہن تم کو نظر آئے اسے مٹادو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہیں روزی اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
میں نا خوش و بے زار ہوں مر مر کی سلوں سے میرے لئے مٹی کا حرم اور بنادو
فارسی شاعری میں اقبال نے تفصیل سے اشتراکیت پر بات کی ہے۔ بہت سے اعضاء مل کر انسان (بندہ) بناتے ہیں دماغ، عقل ، دل ٹانگیں وغیرہ ۔ اشتراکی مزدور کو نہیں مانتے اسی وجہ سے روس میں ۱۹۱۷ء ؁ میں خونی انقلاب آیا اور زار کی قدیم بادشاہت زوال پذیر ہوئی۔اقبال کی نظم ہے جس کا عنوان ہے "موسیولین و قیصرِ ولیم"اس میں اقبال کہتے ہیں کو یہ نازیت، قیصریت او ر کلیسا نے انسان کو طرح طرح کے خواب دکھاکر شکنجے میں کسا ہواہے خواجو کی قمیض مزدور کے خون کی بنیا د پر ہے ہم چاہتے ہیں کہ ہم سرمایہ درانہ نظا م کو آگ لگا کر تقسیم کر دیں۔قیصرِ ولیم بادشاہت اور سرمایہ داری غلامی سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ اکثریت کے نظریات ہی غلامانہ ہوتے ہیں ۔ہندوازم میں جھک کریا ہاتھ جوڑ کر تعزیم کا جو تصور پایا جاتا ہے اصل میں یہی تو اذھان کی غلامی ہے علامہ کی ایک نظم "قسمت نامہ سرمایہ و مزدور"ہے جو مکالماتی انداز ہے جس میں وہ کہنا چاہتے ہیں کہ کارخانہ دار مزدور سے کہتاہے یہ جو روزانہ احتجاج کرناہے اور پانی کی ٹینکی پر چڑھ جانا ہے .... آو سب مل کر کام کرتے ہیں اچھی چیزیں میری اور کوڑا کرکٹ آپ کا ہو گا۔مزدور کہتاہے کہ اب ہم جاگ چکے ہیں اب آپ ہمیں ہمارے حق سے محروم نہیں کر سکتے۔
ایک اور نظم "نوائے مزدور"میں اقبال کہتے ہیں مزدور شکوہ کرتا ہے کہ ہمیں مزدوری کا صلہ نہیں ملتا محنت ہم کرتے ہیں اور فائدہ کارخانہ دار اٹھاتاہے۔نظم "خواجہ و مزدور"اے انقلاب اے انقلاب اس میں بھی مزدور انقلاب کی طرف مائل نظر آتا ہے۔
کارخانے کا ہے مالک مردکِ نا کرداکار عیش کا پتلا ہے محنت ہے اسے نا سازگار
حکم حق ہے لیس للانسانِ الا ماسعیٰ کھائے کیوں مزدور کی محنت کا پھل سرمایہ دار 
علامہ کے اشتراکیت سے متاثر ہونے پر پروفیسر محمد عثمان اپنے مضمون "اقبال اور اشتراکیت "میں لکھتے ہیں "پیامِ مشرق سے لے کر ارمغانِ حجاز تک اپنی چھ سات کتابوں میں اقبال نے سرمایہ داراور مزدور، سامراج اورمحکوم کے بارے میں مختلف طریق اور پیرائے میں جو کچھ کہا ہے وہ سب کچھ انقلابِ روس کے بعد کہا ہے اور جگہ جگہ اس بات کا وافر ثبوت ملتاہے کہ ان کے اس تجزیے اور فکر میں اشتراکی ادب کے اثرات شامل ہیں "اقبال اپنی نظم "خضرِ راہ"میں کچھ یوں فرما رہے ہیں
نغمۂِ بیداری جمہور ہے سامانِ عیش قصہ خواب آور سکندر و جم کب تلک
آفتابِ تازہ پیدابطن گیتی سے ہوا آسمان ٹوٹے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
توڑ ڈالیں فطرتِ انسان زنجیریں تمام دوریِ جنت سے روتی چشمِ آدم کب تلک
باغبان چارہ فرما سے یہ کہتی ہے بہار زخم گل کے واسطے تدبیرِ مرہم کب تلک
اقبال کے شعری مجموعے" ضرب کلیم"میں نظم "اشتراکیت"کے نا م سے ہے اس میں اقبال کہتے ہیں
قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے معلوم بے سود نہیں روس کی یہ گرمئی رفتار
اندیشہ ہوا شوخئی افکار پہ مجبور فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار
انسان کی ہوس نے جنہیں رکھا تھا چھپا کر کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار
اسی طرح ایک اور نظم "کارل مارکس کی آواز"کے عنوان سے ہے اور دوسری نظم "بیلسوک روس"کے نا م سے ہے۔پروفیسر محمد عثمان لکھتے ہیں "اسلام کے سوا اگر اقبال کی نظر عصر حاضر کے کسی اور نظامِ زندگی پر پڑتی ہے تو وہ صرف اشتراکیت ہے روس اور نظام روس (اشتراکیت)کا ذکر کلامِ اقبال میں متعدد مقامات پر ہو اہے لیکن یہ دو کتابوں میں یہ تذکرہ بطورِ خاص ملتا ہے (۱) مثنوی پس چہ بایدکر اور (۲) جاوید نامہ "میں" لاالہٰ الاللہ "کے عنوان سے زندگی کے مخفی اور اثباتی پہلوؤں پر جو حکمت و بصیرت میں ڈوبے اشعار کہے ہیں ان میں پہلے روس کے کارنامے کو سراہا گیا ہے کہ اس نے "دورِ فرنگ"میں بندگی کو خواجگی سے لڑنے کے قابل بنایا اور نظام کہنہ کو درہم برہم کر دیا۔اس کے بعد نہایت ہمدردانہ پیرایہ میں اس بات کی آرزو کی ہے کہ یہ ملک انسانیت کا خدمت گزاراور خیرخواہ ہ ملک "لا"سے "الا"کی طرف بڑھا ہے۔آخر میں کہا ہے کہ مذہب کی طرف اگر یہ نظام رجوع کرے تو دنیا کا یہ بہترین نظام بن سکتا ہے۔اشتراکیت کے حوالے سے اقبال نے کچھ القابات بھی دیئے ہیں مثلاً
لینن۔۔۔۔۔۔۔۔قلب او مومن دماغش کافر است
"The Das Capital"(سرمایہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نیست پیغمبرو لیکن دربخل درازکتاب
کارل مارکس۔۔۔۔۔۔۔۔۔کلیم بے تجلی
کارل مارکس۔۔۔۔۔۔۔مسیح بے صلیب
کارل مارکس۔۔۔۔۔۔پیغمبر بے جبرائیل
اقبال نے اشتراکیت کی برائے نام مخالفت کی ہے ۔ ضربِ کلیم میں" کارل مارکس کی آواز"نظم میں صاف دیکھا جا سکتا ہے
یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی،یہ بحث و تکرار کی نمائش نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش
تیری کتابوں میں اے حکیمِ معاش رکھا ہی کیا ہے آخر خطوط خمدار کی نمائش مریزو کجدار کی نمائش
جہانِ مغرب کے بت کدوں میں کلیساؤں میں مدرسوں میں ہوس کی خون ریزیاں چھپاتی ہیں عقل و عیا ر کی نمائش
"جاوید نامہ"میں جمال الدین افغانی کی زبانی بھی کچھ ایسا ہی کہا ہے۔
ارمغانِ حجاز کی نظم "ابلیس کی مجلسِ شورٰی"میں اقبال نے اس حوالے سے بات کی ہے۔
دستِ فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک فرد کی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کم ڈراسکتے ہیں اشتراکی کوچہ گرد یہ پریشان روزگارآشفتہ مغز آشفتہ خو
پروفیسر آل احمد سرور کو ایک خط میں اقبال لکھتے ہیں۔
"میرے نزدیک فاشزم،کیمونزم،یا زمانہ حال کے کوئی اور ازم حقیقت نہیں رکھتے میرے عقیدے کی رو سے اسلام ہی ایک حقیقت ہے جو بنی نوع انسان کیلئے ہر نقطہ نگاہ سے موجبِ نجات ہو سکتی ہے"

*****








۴۔اقبال کا تصورِ خیرو شر۔۔۔۔۔تصورِ ابلیس۔۔۔۔۔تصورِشیطان
بنیادی طور پر یہ دو مخالف متضاد قوتیں ہیں جو ایک دوسرے سے اازل سے ابد تک بر سر پیکار ہیں ایک خیر کی قوت ہے اور دوسری شر کی، ایک نیکی کی دوسری برائی کی ایک جزا کی ایک سزاکی ۔ان کی حیثیت غیر مرئی سی ہے بعض امور ہم سے ایسے سر انجام ہوتے ہیں جن سے ہمیں عار، شرم محسوس ہوتی ہے یہ بدی ہے یہ شر ہے اس لئے خیر ، نیکی ، بدی اور شر کی ہم کوئی واضع تعریف نہیں کر سکتے۔ انسان کے اندر یہ دونوں قوتیں بیک وقت پائی جاتی ہیں ان کے بغیر کوئی آدمی مکمل نہیں ہو سکتا۔شر کا موضوع زیادہ بحثِ موضوع بنتا ہے اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ابلیس ہے بعض کہتے ہیں کہ وہ ناری ہے کوئی اسے نوری کہتا ہے۔شیطان کہتا ہے کی جنت کی غلامی سے دوزخ کی حکمرانی میں زیادہ مزا ہے بعض روایا ت کے مطابق شیطان جن ہے بعض فلسفی کہتے ہیں کہ یہ محض ایک فرضی کردار ہے جو انسان نے اپنے مدّمقابل گھڑ لیا ہے لیکن اسلامی تصوارت کی رو سے ہمیں یہ شبہ پڑتا ہے کہ یہ کو ئی فرضی کردار نہیں ہے یہ یقیناًموجود ہے غیر مرئی ضرور ہو گا بے شک اللہ کی مرضی کے سوا اک پتہ بھی نہیں ہل سکتا ۔حدیث نبویؐ ہے کہ آپؐ سے استفسار کیا گیا کہ کیاخیر کے ساتھ شر بھی موجود ہے آپ ؐ نے فرمایا بالکل ہے ہر شخض کے ساتھ ایک شیطان موجود ہے صحابہؓ کو محسو س ہوا کہ آپؐ اس سے مبرا ہیں آپؐ نے فرمایا نہیں میرے ساتھ بھی ہے مگر میرے تابع ہے میں حکم دیتا ہوں وہ میرے حکم کی تعمیل کرتاہے۔
بعض مفکرین نے اس ضمن میں یہ کہتے ہیں کہ شریا برائی یا شیطان دراصل یہ انسان کی مختلف کیفیات ہیں غلط قدم اٹھتا ہے تو یہ انسان کی طرف سے اٹھتا ہے مگر ہم نے مورد الزام شیطان کو ٹھہراتے ہیں۔اسی سے ایک اور تصور منسلک ہے وہ تقدیر یا جبرو اختیار کا ہے وہ اس لیئے کہ کائنات میں انسان سب سے اعلٰی اور اشرف المخلوقات ہے لیکن جو تقدیر میں لکھا جا چکا ہے وہ ہو کر رہے گا ان کا حساب کتاب لوحِ کتاب میں محفوظ ہے وہ بدل نہیں سکتا انسان آزادہے دوسری طرف وہ پابند ہے یہ وصف اور خصوصیت صرف انسان کو حاصل ہے کسی اور مخلوق کو تفوق نہیں ہے۔اس حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان تقدیر بدل سکتاہے کیونکہ اسے جبرو اختیار حاصل ہے۔قدیم ادوار میں بھی یعنی حضرت آدمؑ سے جو پہلے انسان تھے ان کے بارے میں کہا جاتاہے کہ اللہ تعالی نے انہیں زمین پر نہیں بھیجا تھا وہ آسمانوں پر تھے ان کو سزا کے طور پر زمین پر بھیجا گیا اللہ تعالی نے حضرت آدم کو کچھ اسماء سکھائے ان کو علم دیا اسی وجہ سے ان کو فرشتوں پر برتری عطاہوئی فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا فرشتوں کے پاس اختیار نہیں ہے کہ وہ اس اختیا ر سے مبرا ہیں۔ابلیس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیااور انکار وجہ یہ بتائی کہ آدم مٹی سے بنا ہے اور میں نوری یا ناری ہوں اور آدم فساد پھیلائے گا ابلیس سب سے بڑا توحید پرست فرشتہ تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے کائنات کا ایک سلسلہ بنانا تھا اس لئے آدم اور شیطان پیداکیئے خیرو شر کی قوتیں ہوئیں تاکہ کائنات کا حسن اور رنگ قائم رہے۔
ایران کی تہذیب بہت قدیم ہے اور وہ آتش پرست تھے ایران میں اسلام حضرت عمرؓ کے دور میں آیا قدیم ایران میں تصورتھا کہ خدا دو ہیں ایک برائی کا ایک اچھائی کانیکی والے کو "یزداں"اوربرائی والے کو "ایرض"کہا جاتا تھا۔ان کا تصور تھا کہ چونکہ یہ دو مخالف قوتیں ہیں اس لیئے یہ ہر وقت برسر پیکار رہتی ہیں زلزلے،سیلاب،آندھیاں ، طوفان اور وبائی امراض وغیرہ یہ یزداں کا کام ہے۔
خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں"حکماء نے شر کی دو بڑی اقسام قرار دی ہیں ایک شر طبعی ہے جیسے آندھیاں ، طوفان،زلزلے اور ہزاروں قسم کی بیماریاں جن سے انسانوں کو ضرر پہنچتی ہے لیکن وہ انسانی ارادوں کی پیداوار نہیں دوسری قسم نفسی یا اخلاقی شر ہے جو انسان کے اختیار کے غلط استعمال سے پیدا ہوتاہے"
اطالوی حکیم لائبنیز کے نزدیک "شر کی ایک قسم مابعدالطبعی بھی ہے اس سے اس کی مرادیہ ہے کہ خداکی ہستی لامحدود ہے جو خیرِمطلق ہے خدا کے سوا ہر مخلوق میں کوئی نہ کوئی کمی ہونا ضروری ہے یہ کمی یا نقص خیر کا ایک گونہ فقدان ہے چونکہ مخلوق خدا نہیں بن سکتی اس لیے ہر ہستی میں کم و بیش نقص کا ہونا لازمی ہے اور ہر نقص ایک قسم کا شر ہے۔قرآن بھی یہ کہتا ہے کہ خیرو شر سب خداکی طرف سے ہے لیکن بایں ہمہ سب کچھ خداکے دستِ خیر سے صادر ہوتا ہے"
ٓایرانی ثنویت کا تصور
قدیم ایرانیوں میں ثنویت یعنی دوئی کا تصور پایا جاتا تھا کہ دو دیوتا ہیں ایک برائی کا ہے جو بھی برائیا ں ہوتی ہیں وہ ایرض کرتا ہے۔جو نیکی کے کاہوتے ہیں وہ یزداں کرتا ہے۔
قدیم ایرانیوں کے ہاں تین قسم کے تصورات ہمیں ملتے ہیں۔۱۔زرتشت۔۲۔مانی۔۳۔مزدک۔
ان میں زرتشت سرِ فہرست ہے۔اور قدیم اہلِ ایران اسے پیغمبر مانتے تھے جبکہ حقیقت میں یہ پیغمبر نہیں تھے اس نے ایک صحیفہ بھی لکھا جس کا نام" اوستا "تھااہل ایران نے اسے خدا کی طرف سے بھیجا ہوا کہا۔
علامہ نے اپنی ایک کتاب "فلسفہ عجم"میں زرتشت کے بارے میں لکھا ہے"جب ہم اس کی کونیات پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ اپنی ثنویت کی رہنمائی میں کل کائنات کو دو شعبوں میں تقسیم کر دیتاہے حقیقت یعنی تمام مخلوقاتِ صالح کا مجموعہ جو ایک ایسی روح کی تخلیقی فعلیت ہے ظہور میں آتا ہے جو رحیم و کریم ہے ۔غیر حقیقت یعنی تمام مخلوقاتِ خبیثہ کا مجموعہ جو اس کے متخالف روح کی پیداوار ہے ان دونوں روحوں کی ابتدائی پیکار فطرت کی متخالف قوتوں میں ظاہر ہوتی ہے اس لیے خیر و شر کی قوتوں کے مابین ایک مسلسل پیکار جاری ہے یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ابتدائی ارواح اوران کی تخلیق میں کوئی شے مداخلت نہیں کرتی۔اشیاء اچھی یا بری اس لیے ہوتی ہیں کہ وہ یا تو خیر کی قوت کی پیداوار ہیں یا شر کی لیکن وہ بذاتِ خود وہ نہ خیر ہیں نہ شر"اسی طرح کا ئنات میں پہلا ملحد "مانی" تھا بے دین فرقے کا پہلا موجد تھا مانی نے اپنے فلسفے میں خیرو شر کی کیٹگری بنائی تھی۔اقبال لکھتے ہیں"اسی صوفی ملحے نے یہ تعلیم دی تھی کہ اشیاء کی یہ کثرت، گوناگونی نورو ظلمت کی ان ازلی قوتوں کے اتصال سے ظہور میں آتی ہیں جو ایک دوسرے سے علیحدہ اور آزاد ہیں۔نور کی قوت دس قسم کے تصورات کی متضمن ہے ۱۔شرافت۔۲۔علم۔۳۔فہم۔۴۔اسرار۔۵۔بصیرت۔۶۔محبت۔۷۔یقین۔۸۔ایمان۔۹۔رحم۔۱۰۔حکمت۔اسی طرح ظلمت بھی پانچ ازلی تصورات کو متضمن کئے ہوئے ہے۔۱۔تاریکی۔۲۔حرارت۔۳۔آتش۔۴۔حدت۔۵۔ظلمت۔ظلمت میں جو کہ فطرت کی نسائی قوت ہے شر کے عناصر پوشیدہ تھے اور یہ رفتہ رفتہ مرتکز ہو گئے اسی سے وہ قبیح صورت والا شیطان وجود میں آیا جس کو قوتِ فعلیت سے موسوم کرتے ہیںیہ پہلا لڑکا کو ظلمت کے رحمِ آتشین سے پیدا ہوا تھا نور کے بادشاہ کی مملکت پر حملہ آور ہوا۔مانی ہی پہلا شخص ہے جس نے اس امر کی طرف نہایت بے باکی سے اشارہ کیا کہ کائنات شیطان کی فعلیت کا نتیجہ ہے اور اسی لیے شر اس کے مایہ خمیر میں شامل ہے"
قدیم صوفیاء اورفلاسفروں کے ہاں بھی ہمیں اس قسم کے تصورات ملتے ہیں بعض کے نزدیک ابلیس سب سے بڑا توحید پرست تھا۔منصور ہلاج اپنی کتاب "طواسین"میں لکھتے ہیں"دنیا میں غلط اور برائی کا جو بھی عمل ہو یا ہوتاہو یہ شیطان کا کام ہے یہ خدا کے ارادوں کا وہ کارندہ ہے جس کے فرائض سب سے زیادہ تلخ،ناگوار،کڑے اور نازک ہیں یہ بات اس کے فرائض میں شامل ہے کہ اہلِ ملامت میں شامل ہو کر ہر وقت لعن طعن کا نشانہ بنا رہے یہ ایک ناگزیر کارندہ مشیتِ ایزدی ہے"مولانا روم نے کہا ہے کہ"شیطان اس ذات کا نام ہے جو عشق سے محروم رہتی ہے اور اسی باعث ادنیٰ مقاصد کے حصول کی خاطر حیلہ گری کرتی رہتی ہے"ضرب کلیم کی ایک نظم جس کا عنوان ہے "تقدیر"یہ بنیادی طور پر ایک فلسفی محی الدین ابنِ عربی ؒ کے خیالات کو اس میں تبدیل کیا گیا ہے یزداں یعنی اللہ کی طرف سے شیطان کے بارے میں کچھ کہلوایا گیا ہے۔
پستئیِ فطرت نے سکھلائی ہے حجت اسے کہتا ہے تیری مشیت میں نہ تھامیرا سجود
دے رہا ہے اپنی آزادی کو مجبوری کا نام ظالم اپنے شعلۂ سوزاں کو خود کہتا ہے دود
مغربی مفکرین
مغرب میں بھی خیروشرکے مختلف تصورات و خیالات موجودہیں۔کم و بیش بارہویں صدی عیسوی سے پہلے مغربی مفکرین کے ہاں یہ سلسلہ چلتا رہا ہے بعد میں ملٹن ،گوئٹے اور دانتے نے ابلیس کے حوالے سے کچھ نہ کچھ کہا ہے 
دانتے:دانتے اطالوی مفکر اور شاعر تھا بنیادی طور پر اس کی شہرت اس کی شاعری تھی اس نے ایک طویل یونانی نظم لکھی اردو میں اسے رزمیہ کہتے ہیں۔قدیم دورمیں داستان اور کہانی نظم کی شکل میں لکھی جاتی تھیں حتٰی کہ دنیا کا قدیم ادب یعنی یونانی ادب کہانی و داستان بھی منظوم تھا۔رزمیہ ایک طویل نظم ہوتی ہے۔دانتے کی اس طویل نظم کا نام Divine" "Comedyتھا جس کا اردو میں طربیہ خداوندی کے نام سے ترجمہ کیا گیا۔اس نظم میں اس نے شیطان کو ایک ضدی نوعیت کے طور پر پیش کیا ہے ۔بائبل میں شیطان کی تصویر موجود ہے اور اسکی شکل و صورت اس طرح بیا ن کی ہے کہ وہ بہت ہیبت ناک اور ساکن ہے ناف سے لے کر گردن تک برف میں ڈھکا ہوا ہے۔قوی ا لجسہ ہے انتہائی بد شکل ہے غرور سے ہر وقت اس کی بھنویں تنی رہتی ہیں اور اس کی عادات ناری ہیں اقبال نے بھی اسے آتشیں کہا ہے جو دھوئیں میں لپٹی ہوئیں ہیں۔ اور ساکن کے بجائے اسے متحرک قراردیا ہے دانتے اسے دوزخ کا حکمران کہتا ہے اس میں انہوں نے اس کی تعریف بھی کی ہے کہ ایک طرف اس نے دوزخ کو سنبھالا ہوا ہے تو دوسری طرف دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش میں ہے۔
ملٹن:دانتے کی طرح جان ملٹن نے بھی ایک طویل نظم "Paradise Lost"کے نام سے لکھی ہے جس کا اردو میں" جنتِ گمگشتہ "کے نا م سے ترجمہ کیا گیا ہے۔اس میں ابلیس کو ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو زبردست شخصیت کا مالک ہے اتنا ہیبت ناک ہے کہ دوزخ بھی اس سے ڈرتی ہے اپنے ارادوں میں پختہ ہے ذہین ایسا ہے کہ اس کو زمان و مکان بھی نہیں بدل سکتے ۔مغرور اتنا ہے کہ کہ انسان کو اپنے مقابلے میں اہل نہیں سمجھتا صرف اللہ کو اپنے مدمقابل سمجھتاہے کہتا ہے کہ اس کائنات میں صرف میر ا مقابلہ اللہ کر سکتاہے باقی کچھ نہیں ۔وہ کہتا ہے کہ گو میں اللہ سے جنگ ہار گیا ہوں مگر میری ہمت میں کمی نہیں آئی۔خدا کو اپنے برابرسمجھتاہے اور بعض حوالوں میں اپنے سے برتر سمھتاہے۔جنت کی غلامی سے دوزخ کی حکمرانی کو تر جیع دیتا ہے اور کمزور ہونادنیا کی سب سے بڑی بدنصیبی سمجھتاہے۔
گوئٹے:گوئٹے نے "فاوسٹ"کے نام سے نظم لکھی ہے۔گوئٹے اعتدال پسند شاعر تھا اس نے کچھ خامیوں اور کچھ خوبیوں کا بھی ذکر کیا ہے ۔فاوسٹ مرکزی کردار ہے جو شیطان کے مد مقابل ہے۔ڈاکٹر عابدحسن نے اس ڈرامے کا اردو ترجمہ کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ"اس کا کام یہ ہے کہ انسان کے دل میں زندگی ،محبت اور عمل کا ولولہ پیدا کرے چونکہ اس کی اپنی خِلقت جوہرِناقص سے ہے اس لئے وہ دونوں باتوں میں حد سے گزرگیا ہے ۔عشرتِ حیات کے سرور نے اسے بے قید جسمانی لذتوں کا پرستاراور قوت عمل کے نشے میں اسے تخلیق ایزدی کا حریف بنادیا ہے وہ چاہتاہے کہ انسان کو نفس پرستی میں مبتلا کر کے اسے آسمانی نور کی پرچھائیاں یعنی عقل سے محروم کردے اور رفتہ رفتہ ساری نوع بشر کو انسانیت کے درجے سے گرادے اس کی آرزو ہے کہ تہذیب و تمدن کا خاتمہ کر کے انسانی روحوں کو اپنا غلام بنا کر خدا کے سامنے لے جائے اور کہے کہ دیکھ تو نے دنیا کو پیداکیا تھا اور میں نے برباد کردیا ہے تو نے انسان کو عقل دی اور میں نے اسے عیش و عشرت کا طلسم دکھا کر چھین لی ہے۔لیکن ہزارکوشش کے باوجود بھی وہ اس میں کامیاب نہیں ہو ا وہ اپنے زعم میں انسانوں کو اس لیے ابھارتاہے کہ سیلابِ فنا میں بہالے جائے مگر انسان تھوڑے دن اس سیلاب کے ساتھ بہتاہے اور آخر میں اس کی قوت سے فائدہ اٹھاکر ساحل سے ٹکرا جاتاہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس قوت کا وہ جزو ہوں جو ہمیشہ بدی کرنا چاہتی ہے اور ہمیشہ نیکی کرتی ہے وہ سر تا پا عمل ہے جو کبھی تھک کر نہیں بیٹھتا وہ انسان کو سکھاتاہے کہ نشیب و فراز کا اعلٰی تجربہ کر کے مادی لذتوں سے آشنائی ہو اس کے خلاف انسان کی اپنی فطرت یہ ہے کہ وہ نظام ہستی کا منشاء معلوم کر کے کائنات کی حقیقت کو سمجھے اور اس سے اتحاد پیداکرے یہ فطرت انسان کے دل میں بلند اور برتر آرزوئیں پیدا کرتی ہے مگر لذت پرستی میں مبتلا کر دیتی ہے ۔پہلی قوت کا نمائندہ فاوسٹ ہے اور دوسری کا شیطان۔انسان کامل کے لیے دونوں کا امتزاج ضرورت ہے "
علامہ اس لئے تعریف کرتے ہیں کہ انسانی زندگی میں شیطان شر اور برائی کی بنیاد پر ایک متحرک قوت ہے چونکہ علامہ جمو د کے خلاف ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ جمود موت ہے لہذا تحرک ہونا چاہیے۔
اس رہ میں مقام بے محل ہے پوشیدہ قرار میں اجل ہے
علامہ کہتے ہیں کہ زندگی کی ساری رنگا رنگی اس شیطان سے ہے اپنی کتاب "جاوید نامہ"میں سید علی ہمدانی سے انہوں نے خیرو شر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کچھ یوں جواب دیا"شیطان سے تعلق کا نتیجہ انسان کا زوال ہے لیکن شیطان سے جہاد کا نتیجہ عروج و کمال ہے انسان کی شخصیت ایک تلوار ہے جس کی آب و تاب سنگ فساں کی محتاج ہوتی ہے اس تلوار کیلئے سنگ فساں شیطان یا شر ہے جس کے بغیر انسان کی شخصیت نشوونما حاصل نہیں کر سکتی ہے۔اس کتاب کے بارے میں اقبال کہتے ہیں کہ یہ کتاب مجھے سب سے زیادہ پسند ہے ابنِ عربی،مولانا روم،عبدالقادر بیدل اور غالب وغیرہ یہ سب سات آسمانوں سیر کرتے ہوئے مختلف لوگوں سے ملاقات کرتے ہیں۔
علامہ کی ایک نظم "تسخیرَفطرت"ہے اس کے آخری بند میں انسان اللہ کے روبرو حاضر ہوتاہے ور شیطان نے جو اس کو بہکایا اس پر وہ اللہ سے معافی مانگتاہے ۔کہتاہے کہ غلطی تو مجھ سے ہوئی اس امر کی توجیہہ بیان کرتے ہوئے کہتاہے کہ اپنی ترقی و توسیع کی غرض سے میرے لیے یہ ضروری تھا اگر میں شیطان کی بات نہ مانتا تو میری نشوونما ادھوری تھی۔علامہ نے اس نظم کے آخر میں انسانِ کامل کو اس پر فتح یاب کیا ہے اور شیطان انسان کامل کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جاتاہے۔گوئٹے نے بھی اپنی نظم میں فاوسٹ کے سامنے شیطان کو جھکتے دکھایا ہے پھر شیطان اس کا مطیع ہو جاتا ہے یہی اس کا مقدر ہے۔علامہ نے یونان کے ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہوا تھا اور وہ اسی لیے یونانی ڈراموں کی طرح نقطہ عروج اور مکالماتی انداز سے متاثر نظر آتے ہیں۔اس کی مثال ان کی نظمیں شمع و شاعر،شکوہ وغیرہ ہیں۔خلیفہ عبدالحکیم اپنی کتاب "فکرِ اقبال"میں لکھتے ہیں کہ"اقبال کے ہاں ابلیس کا تصور اس کے فلسفہ خودی کا ایک جزو لاینفک ہے خودی کی ماہیت میں ذات الہی سے فرار اور سعئی قرب و وصال دونوں شامل ہیں اقبال کا فلسفہ خودی کی جان اس کانظریہ عشق ہے۔عشق کی ماہیت،آرزو،جستجو اور اضطراب ہے۔اگر زندگی میں مواقع موجود نہ ہوں تو وہ خیرکوشی بھی ہو جائے جس کی بدولت خودی میں بیداری اور استواری پیداہوتی ہے۔اگر انسان کے اندر باطنی کشاکش نہ ہو تو زندگی منجمد ہو کر رہ جائے ۔اقبال نے شیطان کی خودی کو بھی زور وشور سے پیش کیا ہے اور کئی اشعار میں تو شیطان کی تذلیل کی بجائے اس کی تکریم کا پہلو غالب نظر آتا ہے۔خودی اپنے ارتقاء کیلئے خود اپنا غیر پیدا کرتی ہے تاکہ اس کو جذب کرنے اور اس پر غالب آنے سے انسان روحانی ترقی کر سکے اور آزادانہ فیصلہ کر سکے"
تسخیرِ کائنات کے پانچ حصے ہیں۔۱۔میلادِ آدم ۔۲۔انکارِ ابلیس۔۳۔اغواءِ آدم ۔۴۔ آدم از بہشت برون آمدہ گوید ۔۵۔ صبحِ قیامت و آدم در حضورِ واری۔
"فلسفہ اقبال"میں پروفیسر تاج محمد نے لکھا ہے "یہاں اقبال کے شیطان کو اپنے اندرونی جذبات یعنی جذبہ مسابقت ،دوسروں پر فوقیت حاصل کرنے اور غلبہ پانے کی آرزو کرنے کا آزادانہ اظہار کرتے دکھایا ہے۔ماحول کی قوتوں کے مقابلے میں ردعمل اور انہیں متاثر کرنے کا جو فطری رجحان ہر جاندار مخلوق میں پایا جاتا ہے شیطان گویا اس رجحان کی ایک رمزیہ شکل ہے یہ رجحان زندگی کا ایک جوہر ہے اور تمام آرزو طلب سعی و کامرانی کی تحلیق کا ذمہ دار اصل یہی ہے"
علامہ کی ایک نظم "جبرائیل و ابلیس"ہے جو مکالماتی انداز کی ہے اور بال جبرائیل میں شامل ہے۔اس نظم میں اقبال کہتے ہیں
ہے میری جرأت سے مشتِ خاک میں ذوقِ نمو میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تاروپو
خضر بھی بے دست و پا الیاس بھی بے دست و پا میرے طوفان یم بہ یم دریا بہ دریا جو بہ جو
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو
میں کھٹکتا ہوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح تو فقط اللہ ہو اللہ ہو اللہ ہو
ابلیس دراصل سوزدرونِ حیات ہے اور زندگی میں جدائی یا فراق بھی اسی کی وجہ سے ہے ہحرووصال بھی اسی کی وجہ سے ہے۔اقبال کی مشہور تصنیف "جاوید نامہ"جس کے ۱۱ یا ۱۲ زبانو ں میں تراجم ہو چکے ہیں ،اس میں ابلیس کا ذکر ہے ۔ابلیس انسان سے بور ہو رہا ہے انسان کی کم ہمتی اور اس کے ساتھ رہنے سے انسان مجھے خراب کر رہا ہے اور مجھے کوئی مردِ کامل نظر نہیں آتا۔
ضربِ کلیم میں "تقدیر "کے عنوان سے ایک نظم ہے اس میں بھی ابلیس اور اللہ میں ایک مکالمہ چلتا ہے ۔ارمغانِ حجاز میں بھی ایک نظم ہے ۔ابلیس کی دو قسمیں بتائی گئی ہیں ۔۱۔ابلیس خاکی۔۲۔ابلیس ناری،اور علامہ نے اسے یزداں دیدہ و کامل اعیار کہا ہے ۔ضربِ کلیم کی ایک مشہور نظم "ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام"ہے
لا کر برہمنوں کو سیاست کے پیچ میں زنّاریوں کودیرِ کہن سے نکال دو
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا روحِ محمد اس کے بدن سے نکال دو
فکرِ عرب کو دے کے فرنگی تخیلات اسلام کو حجازو یمن سے نکال دو
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج ملّا کو ان کے کو ہ و دمن سے نکال دو
اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو آہو کو مرغزارِ ختن سے نکا ل دو
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز ایسے غز ل سرا کو چمن سے نکال دو
*****
اقبال کی طویل نظموں کا تجزیاتی مطالعہ
۱۔مسجدِ قرطبہ(بال جبریل)۱۹۳۳ء ؁
ٓؑ ؒ ٓعلامہ کا دور مسلمانو ں کے زوال کا عہد تھا جس کے پس منظر میں انکا تابناک ماضی اپنی کئی یادگاروں کے ساتھ زندہ و تابندہ تھاپہلی جنگ عظیم میں ترکی پر قبضہ ،خلافت کا خاتمہ اس سب سے اقبال بہت نالاں تھے ترکی کو اقبال اس لیے پسند کرتے تھے کہ شاید مرد کامل کا ظہور وہاں ہو مگر ان کو بہت مایوسی ہوئی۔علامہ سے پہلے حالی نے بھی ایک طویل نظم لکھی تھی جو "مسدس حالی"کے نام سے مشہور ہے مگر یہ نظم ایک مرثیہ ہے اس میں قنوطیت اور نا امیدی پائی جاتی ہے جبکہ اس کے برعکس علامہ کا انداز رجائی ہے نا امیدی نہیں ہے ان کو پڑھ کر تحرک ملتا ہے۔مسجد قرطبہ ہسپانیہ ۔اندلس موجودہ سپین میں لکھی گئی۔دوسری گول میز کانفرنس سے واپسی پر ہسپانیہ کی بھی علامہ نے سیر کی اور اس اندلس کی سر زمین پر مسلمانوں کا قبضہ بہت عرصہ تک قائم رہا اور اس کی ابتداء ۷۱۱ء ؁ میں ہوئی اور وہ شخص عبدالرحمن اول تھا۔علامہ کے دل میں ان کا بہت احترام تھا اور اسی لیے علامہ کو وہ ملک بہت پسند تھا ۔مسجد قرطبہ مسلمانوں کے عروج اور شاندار ماضی کی ایک نشانی ہے عبدالرحمن نے یہ جگہ جو ایک گرجا گھر تھا اسے خرید کر مسجد کیلئے وقف کر دیا مسجد کا کام شروع ہوا تو بعض مورخین کہتے ہیں کہ وہ روزانہ مسجد کی جاتے اور اپنے ہاتھ سے کا م کرتے تھے اس وقت اس مسجد کی تعمیر پر لاگت ایک لاکھ دینار ہوئی تھی جو آج کے حساب سے بہت زیادہ بنتی ہے۔ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے بھی اس مسجد کی خوبصورتی میں اضافہ کیا اس کے نقش و نگار ،روشنیوں اور فانوس اور آئینہ گری کا اہتمام کیا اس مسجد کا مینار خاصا طویل ہے بلندی ۴۰میٹر ہے شکل فرانس کے ایفل ٹاور سے ملتی ہے ستونوں کی تعداد کم و بیش ۱۲۰۰ ہے علامہ نے اس نظم میں ان ستونوں کو نخیل سے تشبیہ دی ہے قرطبہ شہر ملک اندلس کا دارالخلافہ تھا اپنے زمانے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں بہت بڑی یونیورسٹی قرطبہ یونیورسٹی کے نام سے موجود تھی۔مسٹر آسن نے آپ کو ہسپانیہ میں دعوت دی آپ نے وہاں ایک لیکچر بھی دیا جس کا عنوان تھا"The Intellectual World of Islam and Spain"علامہ کو اس سر زمین سے ای انس اور پیار تھا اپنی ایک نظم جس کا عنوان بھی "ہسپانیہ "ہے اس میں کہتے ہیں۔
ہسپانیہ تو خونِ مسلمان کا امین ہے مانند حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تیری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں خاموش اذانیں ہیں تیری بادِ سحر میں
علامہ کا ایک خط شیخ محمد اکرام کے نا م ہے اس مسجد کے حوالے سے کہتے ہیں "مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا ہے جو مجھے پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی " اس نظم میں علامہ نے جو بنیادی فلسفیانہ نکات ہیں وہ سب کے سب اس نظم میں آگئے ہیں علامہ اس نظم کے علاوہ کچھ اور نہ بھی لکھتے تو پھربھی اردو شاعری میں ان کا ایک بڑا مقام ہوتا۔انہوں نے ایجازو اختصار سے کام لے کر اس میں پورا فلسفہ پیش کر دیا ہے۔پروفیسر مجتبی حسین لکھتے ہیں"نظم کا مرکزی موضوع جسے ایک تحریک کہنا زیادہ مناسب ہو گا ۔مسجد قرطبہ ،یہ ہسپانوی تاریخ کے ایک اہم دور کی نشاندہی کرتی ہے جو "خونِ مسلمان"کا امین ہے اسی لیے اقبال کی نظر میں ہسپانیہ کی سر زمین حرم کی مانند پاک ہے اور قرطبہ کی مسجد ایک یادگار ہی نہیں خود ایک تاریح بن جاتی ہے جو سنگ و خشت سے لکھی گئی ہے"
انڈیا کے نقاد جگن ناتھ آزاد جو ایک شاعر بھی ہیں ،انہوں نے ایک طویل مضمون مسجد کے حوالے سے لکھا ہے وہ کہتے ہیں "مجھے یہ مسجد دیکھنے کا موقع نہیں ملا اگر میں اس مسجد کو دیکھو تو وہاں میں یہ فیصلہ نہ کر سکوں گا کہ مسجد مادی شکل میں بہتر ہے یا اقبال کی لکھی ہوئی مسجدبہتر ہے"
سید عابد علی عابدنے اپنی کتاب " شعرِ اقبال"میں لکھا ہے کہ انہوں نے بھی مسجد قرطبہ دیکھی۔اسی طرح ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی بھی اسپین گئے اور مسجد قرطبہ کو دیکھا اور واپسی پر ایک سفر نامی بھی لکھا۔
جگن ناتھ آزاد کے بقول"یہ نظم صرف اقبال کا ہی شاہ کار نہیں بلکہ ساری اردو شاعری کا شاہ کار ہے اردو شاعری میں اس نظم کے سوا کچھ بھی نہ ہوتا تو بھی ہماری شاعری دنیا کی صفِ اول کی شاعری میں ایک ممتاز مقام حاصل کر سکتی تھی۔مسجد قرطبہ شعریت،رومانیت،حقیقت پسندی،رمزیت اور ایمائیت کا ایک ایسا حسین امتراج ہے کہ ہماری ساری شاعری روز اول سے آج نک اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے "
فنی و فکری جائزہ
یہ نظم آٹھ بندوں پر مشتمل ہے اس کی ہیت ترکیب بند ہے اور ہر بند میں سات سات اشعار ہیں اور نظم کی ابتداء یعنی پہلا بند اس کو پڑھنے نے معلوم ہوتاہے کہ بہت بلندی سے پانی کی طرح تیز آرہی ہے انداز یونانی ڈراموں کا ہے اچانک پن اس میں پایا جاتا ہے۔پروفیسر مجتبی حسین لکھتے ہیں"اردو کی کم ہی نظمیں ایسے اچانک پن کے ساتھ شروع ہوتی ہیں ۔نظم کے پہلے مصرعے کے بعد ایسا محسوس ہونے لگتاہے ہم دفعتاً ایک پُر شور دریا کے کنارے آکھڑے ہوتے ہیں جس کی روانی ہر آنے والے مصرعے کے ساتھ تیز تر ہونے لگتی ہے اور جس کے بہاؤ میں کائنات کی ہر شے بہتی چلی جاتی ہے پہلا بند پڑھنے سے تمثال کاری ملتی ہے جو متاثر کرتی ہے "ان آٹھ بندوں میں بنیادی مباحث وقت کا تصور،عشق کا نظریہ،ماہیت،مسجد قرطبہ کا حسن و جمال اورجلال،مرد مومن کا نظریہ،سپین میں مسلمانوں کا شاندار ماضی یعنی سابقہ عظمت، اندلس میں احیائے اسلام کیلئے کوششیں اور آخر میں اس امید کا اظہار کیا جاتاہے کہ وقت عنقریب آنے والا ہے جب مسلمانوں کو پھر عروج آئے گا اور ایک مردمومن پیداہو گا جس کو میری بصیرت دیکھ سکتی ہے جب دوبارہ مسلمان ترقیوں اوربلندیوں کو چھوئیں گے۔
اس نظم میں فنی لحاظ سے تراکیب،تلمیحات،تشبہات،استعارات ،محاکات،صنائع بدائع اور عربی اثرات بھی موجود ہیں۔علاوہ ازیں متنوع موضوعات، فارسیت کا عنصر زیادہ ہے،غنائیت یعنی موسیقییت نغمیت پائی جاتی ہے۔تکرار لفظی سے بھی غنائیت پیدا ہوتی ہے۔علامہ نے قوافی سے بھی کام لیا ہے ایسے قوافی کی تکرار عموماً شاعری میں تنقید کا باعث بنتی ہے مگر اقبال جیسے بڑے شعراء اس تنقید کی گرفت میں نہیں آتے۔مثلاً
عشق کے مضراب سے تارِ حیات عشق سے نورِ حیات عشق سے نارِ حیات
تشبیہات کا بھی استعمال اقبال اور غالب کے ہاں سب سے زیادہ ہے مثلاً دلِ مصطفی، عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام، امیرِ جنود وغیرہ شامل ہیں۔شعرِ اقبال میں سید عابد علی عابد جنہوں نے تلمیحات اقبال سے بھی ایک کتاب لکھی ہے وہ لکھتے ہیں۔"جب وہ باریک تعقلات،باریک تصوارت اور لطیف افکار واسرار کی توضیع کرنا چاہتے ہیں تو ایسی خوبصورت تشبیہیں استعمال کرتے ہیں کہ ان دیکھی چیزیں دیکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔"تلمیحات کا بھی استعمال کیا ہے اور کچھ صنعتیں بھی استعمال میں لائیں ہیں جیسے صنعتِ ترافق وغیرہ ہے۔محاکات نگاری کی مثال بھی اس شعر سے لگائی جاسکتی ہے۔
تیری بنا پائدار تیرے ستون بے شمار شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجومِ نخیل

۱۔طلوعِ اسلام(بانگ درا)۱۹۲۳ء ؁
بانگ درا کی یہ آخری نظم ہے۔انجمن حمایت اسلام کے ۳۸ ویں اجلاس میں اقبال نے یہ نظم پڑھی ایک طرح سے علامہ کی بھی یہ انجمن حمایت اسلام میں آخری نظم تھی ۔اس کے بعد اقبال کی نظموں میں شمع و شاعر، خضرِ راہ مکالماتی انداز میں لکھی گئی ہیں۔شمع سوال کرتی ہے اور شاعر جواب دیتا ہے۔اسی طرح خضر راہ میں بھی سوال و جواب کا انداز ہے۔ان نظموں میں مسلمانوں کی تنزلی اور زوال کا بیان ہے ان دونوں نظموں میں اقبال کے ہاں مایوسی کا عالم پایا جاتا ہے جبکہ طلوع اسلام ان دونوں نظموں کا تتمہ ہے نظم کے عنوان سے ہی ایک امید کا اظہار ہوتا ہے کہ اسلام دوبارہ طلوع ہو گا وہ پر امید کہ اسلام کا دوبارہ احیاء ہو گا اور نشاۃ الثانیہ ہونے والا ہے جس زمانے میں علامہ نے یہ نظم لکھی تھی ان کو امید ہونے لگی تھی ترکی کے حوالے سے کہ شاید پہلی جنگ عظیم کے بعد مسلمان دوبارہ غالب آجائیں گے۔مسلمان سمرنا پر قبضہ کر چکے تھے اور مراکش بھی آزادی حاصل کر چکا تھا۔ترکی نے مشرقی یونان کا علاقہ حاصل کر لیا تھا اس وقت علامہ کو ایسا لگ رہا تھا کہ مسلمان دوبارہ عظمت رفتہ کی رفعتوں کو چھوئیں گے۔دراصل ان کے اندر یہ خوشی کہ لہر دوڑ رہی تھی کہ ہندوستان بھی ایک قوی تحریک ،ترک موالات کے نام سے بہت زوروں پر تھی یہ وہ مختلف عوامل تھے جن کی بناء پر اقبال نے یہ نظم لکھی۔غلام رسول مہر جو اقبال کے دوستوں میں سے تھے اور دوسری گول میز کانفرنس میں بھی اقبال کے ساتھ شریک تھے وہ کہتے ہیں کہ"یہ نظم سراسر احیائے اسلامیت کے پرمسرت جذبات سے لبریز ہے"علامہ نے یہ نظم ۱۹۲۳ء ؁ میں تخلیق کی۔
یہ نظم ۹ بندوں پر مشتمل ترکیب بندہیت میں ہے اور ہر بند میں آٹھ اشعار ہیں۔ان نظموں کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ ٖغزلوں جیسی لگتی ہیں۔کیونکہ ہر نظم میں ایک ہی قافیہ چلتاہے۔ فکری حوالوں سے مختلف موضوعات ہیں۔جن میں ایک نئی دنیاکی امید ہے اس دنیا میں مسلمان کا مقام مسلمان کا کرداراور اس کی خصوصیات ، جنگ عظیم کے نتائج ، مغرب سے مایوسی ، مسلمان انسانیت کا مستقبل ہو گا۔آخری بند پورے کا پورا فارسی ہے اس میں مسلمانوں کے روشن مستقبل کے حوالے سے بات کی گئی ہے ۔خضر راہ میں جو سوال اٹھائے گئے تھے ان کے جواب اس نظم میں موجود ہیں۔یہ ایسی نظم ہے جس میں رمز کم ہے اور شاعر نے کھلی کھلی باتیں کیں ہیں تو اسی لئے نظم کو پڑھتے ہوئے ایک جوش کی کیفیت قاری کے اندر بھی پیدا ہوتی ہے اسی طرح تکرارلفظی بھی پائی جاتی ہے۔
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں ادھر ڈوبے اُدھر نکلے اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
نظم میں فصاحت و بلاغت بھی کمال کی ہے۔جس کی مثال یہ شعر ہے اس سے زیادہ بلیغ شعر کوئی نہیں ہو سکتا۔
اگر عثمانیوں پے کوہے غم ٹوٹا تو کیا غم ہے کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اس نظم میں نادرتراکیب استعمال کی گئی ہیں مثلاً خون صد ہزار انجم،کتاب ملت بیضاں، محبت فاتح عالم، صید زبوں شہر یاری وغیرہ۔اور بھی بے شمارتراکیب استعمال کی گئی ہیں۔تشبیہات ،استعارات اور تلمیحات بھی شامل ہیں ایک شعر میں تین تلمیحات استعمال کی ہیں مثلا 

مٹایا قیصرو کسریٰ کے استبداد کو جس نے وہ کیا تھا?زورِ حیدر فقرِ بوذر صدقِ سلیمانی
محاکات نگاری کا سلسلہ بھی پایا جاتا ہے۔
گزر جا بن کے سیل تندرو کوہ و بیاباں سے گلستاں راہ میں آجائے تو جوئے نغمہ خواں ہو جا
*****

۳۔ابلیس کی مجلسِ شوریٰ(ارمغانِ حجاز)۱۹۳۶ء ؁
یہ علامہ اقبال کی آخری طویل نظم ہے اس کے بعد انہوں نے کوئی طویل نظم نہیں لکھی۔یہ نظم ۱۹۳۶ء ؁ میں لکھی گئی۔لفظ ابلیس یونانی زبان کا ہے اس کے ہجے DIABOLOS ہیں اس کے پہلے حرف کو حذف کر کے باقی حروف کو معرب کر دیا گیا ہے مطلب عربی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔عربی میں یہ لفظ ابلیس کے طور پراستعمال ہوتاہے دروغ گو،فتنہ پرداز اور ایک معنی اس کے انتہائی مایوسی کے بھی ہیں۔
یہ نطم آٹھ بندوں پر مشتمل ہے انداز تمثیلی اور ڈرامائی ہے ۔اقبال کے ذہن میں یقیناًیورپین پارلیمنٹ کا تصور موجود ہو گاتبھی یہ نظم انہوں نے لکھی ۔اقبال اس قسم کی جمہوریت کو پسند نہیں کرتے تھے اور مشرقی جمہوریت کو بھی ناپسند کرتے تھے۔مگر آمریت کے بھی وہ خلاف تھے۔انہوں نے براہِ راست اس نظام پر تنقید کی ہے۔عموماً قدیم مفکرین کے ہاں ابلیس کا سلسلہ اخلاقی اور جنسی حوالے سے تھا مگر دنیا میں شاید اقبال واحد مفکر ہیں۔جس نے ابلیس کو سیاسی طور پر پیش کیا ہے۔وہ سمجھتے تھے کہ یہ سارے نظام جمہوریت،آمریت،بادشاہت،ملکویت ،اشتراکیت یہ سب دراصل ابلیس کی ہی شکلیں ہیں اس لئے علامہ نے کہا اگر سیاست سے دین کو الگ کر دیا جائے تو وہ جمہوریت نہیں رہتی بلکہ چنگیزی بن جاتی ہے۔اس نظم میں مرکزی کردار بذات خود ابلیس کا ہے اس کے بعد اس کے مشیر ہیں ۔اس اجلاس میں اس کے سب چیلے اپنی کارکردگی کے لحاظ سے تذکرہ کرے ہیں اور مشورہ دیتے ہیںآنے والے واقعات اور خطرات سے بھی آگاہ کرتے ہیں۔آخر میں ابلیس خطاب کرتاہے کچھ باتیں تسلیم کرتا ہے اور کچھ نہیں تسلیم کرتا۔ابلیس کا مکالمہ ایسا متبکرانہ اور طاقتور ہے جو اس نظم کی ایک خوبی ہے ۔
نظم میں فنی اور فکری لحاظ سے مختلف موضوعات ہیں مثلاً سیاست کی بیشتر اقسام بتائی ہیں۔تشبیات استعارات اور تلمیحات کا استعما ل بھی نہایت خوبصورتی سے کیا ہے۔
*****

Comments

Popular posts from this blog

منٹو کی افسانہ نگاری میں عنوانات کی اہمیت

افسانہ کے فن میں عنوانات کی اہمیت