امجد طفیل کا سوانحی و شخصی خاکہ

امجد طفیل عصر حاضر کی نئی نسل کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے بہت سی اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان اصناف میں افسانہ، انشائیے، تنقیدی مضامین شامل ہیں۔امجد طفیل یکم دسمبر۱۹۶۳ء کو ضلع نارووال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ایم ۔سی پرائمری سکول کوچہ گئیہ بازار تیزابیہ سے حاصل کی۔آپ نے میٹرک کا امتحان ۱۹۷۹ء میں مسلم گورنمنٹ سکول بھاٹی گیٹ سے پاس کیا اور انٹر کا امتحان ۱۹۸۲ء میں پاس کیا۔ گریجوایشن کا امتحان ایم ۔ اے ۔ او کالج لاہور سے ۱۹۸۵ء میں پاس کیا۔ گریجوایشن میں ان کے مضامین اردو ادب اور نفسیات تھے۔ ایم ۔اے سائیکالوجی کا امتحان گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۸۹ء میں پاس کیا۔

آپ کے والد محترم کا نام محمد طفیل ہے۔ آپ کے والد ۱۹۴۰ء میں لاہور میں پیدا ہوئے ۔ محمد طفیل کی پانچ اولادیں ہیں۔ سب سے بڑے بیٹے امجد طفیل ہیں ان کے بعد دوسرے بیٹے کا نام اقبال جاوید ہے۔ تیسرے نمبر پر بیٹی شازیہ طفیل ہیں ان کے بعد محمد زبیر طفیل ، ان کے بعد امجد کامران اور سب سے چھوٹی بیٹی کا نام ارم طفیل ہے۔ ان بہن بھائیوں میں ارم طفیل نے زیادہ عمر نہ پائی اور محض اکیس( ۲۱) سال کی عمر میں کینسر کے باعث انتقال کر گئی۔ آپ کے والد زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے بلکہ ان کا ایک چھوٹا کاروبار تھا۔ آپ کا تعلق شیخ خاندان سے ہے۔ آپ کے والد کا انتقال ۲۰۱۰ء میں ہوا۔ آپ کی والدہ کا نام ثریا بیگم ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ ۱۹۴۵ء میں ضلع شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔ آپ کی والدہ زیادہ پڑھی لکھی خاتون نہیں ہیں، لیکن انھوں نے اپنی اولاد کی پرورش اور تربیت بہت اچھے انداز میں کی ہے۔ 

امجد طفیل کو لکھنے پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ بچپن میں ان کی نانی اماں ان کو کہانیاں سنایا کرتی تھیں، جس کی وجہ سے ان میں ایک تجسس پیدا ہوا۔ اسی شوق اور تجسس کو بروئے کار لاتے ہوئے انہوں نے تاریخی اور جاسوسی ناول پڑھنے شروع کیے۔ جس سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوا اور اسی تجسس اور شوق نے انہیں ادبی کتابوں کے مطالعہ کی طرف راغب کیا۔ جب وہ ساتویں کلاس کے طالب علم تھے تب سے انہوں نے ادب کی طرف رغبت محسوس کی۔
مختلف کتابوں کے مطالعہ کرنے سے جیسے جیسے ان کی معلومات میں اضافہ ہوا تو ان کے اندر لکھنے کا شوق بڑھتا گیا۔ اپنے اسی شوق کو مدنظر رکھتے ہوئے انھوں نے جاسوسی ناول لکھنا شروع کیے ۔ اس وقت وہ دسویں کلاس کے طالب علم تھے۔ ان کے دوستوں نے بھی لکھنے کے حوالے سے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان کو لکھنے کی جانب راغب کیا۔
امجد طفیل کی شادی ۳ مارچ۱۹۹۵ء کو اپنے ہی خاندان میں ہوئی۔ آپ کی بیگم کا نام فہمیدہ بانو ہے۔ جو پڑھی لکھی گھریلو خاتون ہے۔ فہمیدہ بانو نے ایم۔اے (ایجوکیشن ) کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے حاصل کی۔ فہمیدہ بانو نہایت خوش اخلاق، باوقار، نرم گفتار اور خدمت گزار عورت ہیں۔ ان کی ازدواجی زندگی نہایت خوشگوار ہے۔ امجد طفیل فہمیدہ بانو کے متعلق اپنے خیال کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ:
’’فہمیدہ بانو میری بہت اچھی بیوی ہیں، وہ ہر معاملے میں تعاون کرنے والی اور نہایت خدمت گزار ہیں۔ میں ان کے ساتھ ایک پرسکون اور خوشگوار زندگی گزار رہا ہوں‘‘۔ ۱؂

امجد طفیل نے اپنے دوسرے افسانوی مجموعے ’’مچھلیاں شکار کرتی ہیں‘‘ کا انتساب اپنی بیوی فہمیدہ بانو کے نام کیا ہے۔ فہمیدہ بانو سے ان کی چار اولادیں ہیں۔ جن میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ سب سے بڑی بیٹی کا نام روحا امجد ہے وہ پنجاب یونیورسٹی لاہور میں فائن آرٹس کی طالبہ ہیں۔ اس سے چھوٹا بیٹا حارث امجد ہے۔ جو پنجاب کالج لاہور میں ایف۔ایس۔سی کی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ اس کے بعد بیٹی صوفیہ امجد ہے جو نویں کلاس میں پڑھتی ہے اور سب سے چھوٹا بیٹا کامل امجد ہے جو چوتھی کلاس کا طالبعلم ہے۔
امجد طفیل نے ملازمت کا آغاز نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجی قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے کیا۔ اس ادارے میں بطور ریسرچ فیلو اپنی خدمات جون ۱۹۸۹ء سے دسمبر ۱۹۹۰ء تک انجام دیتے رہے۔ 

اپریل ۱۹۹۲ء سے جولائی ۱۹۹۲ء تک نیشنل سنٹر فاررورل ڈویلپمنٹ میں اور پھر جولائی ۲۰۰۲ء سے جولائی ۲۰۰۳ء تک فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن آف پاکستان (اسلام آباد) میں بطور ٹریننگ آفیسر کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ جولائی ۱۹۹۳ء سے اکتوبر ۱۹۹۳ تک نیشنل رورل سپورٹ پروگرام میں سوشل آرگنائزر کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ۲۸ اکتوبر ۱۹۹۴ء میں پنجاب ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ لاہور میں بطور لیکچرار منتخب ہوئے۔ بطور لیکچرار کی پہلی تعیناتی گورنمنٹ گارڈن کالج راولپنڈی میں ہوئی۔ اس ادارے میں وہ ۲۰۰۲ء تک اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد دسمبر ۲۰۰۲ء میں ان کا تبادلہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج قصور میں ہوا۔ اس کالج میں کچھ عرصہ خدمات سرانجام دینے کے بعد انہیں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدے پر ڈائریکٹریٹ آف سٹاف ڈویلپمنٹ کے محکمہ میں کچھ ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ اس کے بعد گورنمنٹ ایجوکیشن کالج فار مین لاہور میں بطور لیکچرار اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ۲۰۰۳ء سے ۲۰۰۶ء تک پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں واپس آئے اور اپنی تعلیم مکمل کی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے یکم اپریل ۲۰۰۶ء میں انھوں نے دوبارہ کالج ایجوکیشن کالج فارمین لاہور کو بطور لیکچرار جوائن کیا۔ مئی ۲۰۰۸ ء میں گورنمنٹ ایجوکیشن فارمین لاہور سے ان کا تبادلہ ایم۔اے۔او کالج لاہورمیں ہوا۔ اگست ۲۰۱۰ء میں ان کو پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری مکمل کرنے پر اسسٹنٹ پروفیسر کا عہدہ ملا۔ اس وقت وہ گورنمنٹ ایم۔اے۔او کالج لاہور میں شعبہ سائیکالوجی میں پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

اس کے علاوہ وہ مختلف لیول کے ٹریننگ کورس کے سیشن بھی مرتب کرواتے ہیں۔ اس کے علاوہ جی ۔ سی یونیورسٹی لاہور میں بطور وزٹنگ پروفیسر ایم۔فل اور ایم ۔ایس ۔سی کے طلبہ کو پڑھاتے رہے۔ اس کے علاوہ لاہور کی مختلف ادبی و ثقافتی سرگرمیوں میں شرکت کرتے ہیں اور حلقہ ارباب ذوق کے موجود سیکرٹری ہیں اور ہر اتوار کو پارٹی ہاؤس میں لاہور میں ادبی اجلاس منعقد کرواتے ہیں۔
اس کے علاوہ امجد طفیل نے مختلف ادبی رسائل اور اخبارات میں بھی مدیرانہ خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ۱۹۸۴ء میں کالج میگزین ’’اقرا‘‘ کے نائب مدیر کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیں۔ خبر نامہ ’’بلٹن‘‘ میں طالب علم مدیر رہے۔ یہ خبر نامہ اسی کالج میں منعقد ہوتا تھا۔ جس کالج سے اقراء میگزین نکلتا تھا۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں ایک رسالہ بک پوسٹ کے نام سے نکلتا تھا۔ جس کی مجلس ادارت میں امجد طفیل کے علاوہ محمد حمید شاہد اور محمد آصف بٹ بھی شامل تھے۔ اس رسالے کا مقصد کتاب بینی اور کتاب نویسی کو فروغ دینا تھا۔ ۲۰۱۲ء میں ڈاکٹر تحسین فراقی نے ’’مباحث ‘‘کے نام سے رسالے کا اجراء کیا جس میں امجد طفیل کو معاون مدیر مقرر کیا گیا۔ ڈاکٹر اظہر علی جو گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ نفسیات سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے ایک رسالہ ’’ذہن‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ ۱۹۹۰ء میں امجد طفیل نے اس رسالے میں بطور معاون مدیر اپنی خدمات سرانجام دیں اور ۲۰۰۲ء میں امجد طفیل نے رسالہ ’’ذہن‘‘ میں مدیر کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیں اور ۲۰۰۸ء میں ان کو رسالہ ذہن کا انچارج مدیر مقرر کر دیا گیا۔ امجد طفیل کی ان خدمات کو سراہتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امجد طفیل کی ادب کے حوالے سے ان کی بہت سی مدیرانہ خدمات ہیں۔

امجد طفیل نے لکھنے کا باقاعدہ آغاز کالج کے زمانہ طالب علمی سے ہی کر دیا تھا۔ لکھنے کے آغاز کے حوالے سے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ:
’’ یہ زمانہ ۱۹۸۳ء کا تھا۔ جب میں بی۔اے کا طالب علم تھا۔ آغاز میں میں نے شاعری کی صنف میں طبع آزمائی کی، مگر جلد ہی میں نے شاعری ترک کر دی، کیونکہ مجھے محسوس ہوا کہ میں اپنا مافی الضمیرشاعری کی بجائے نثر کی صورت میں بہتر طور پر بیان کر سکتا ہوں‘‘۔ ۲؂

اس کے بعد انہوں نے انشائیے کی صنف میں طبع آزمائی کی۔ انہوں نے بہت سے انشائیے لکھے ان کے یہ انشائیے مختلف ادبی حلقوں پیش کیے جاتے رہے اور مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ جن رسائل میں ان کے انشایئے شائع ہوتے رہے ان کے نام ’’ماہ نو‘‘، ’’رسالہ اوراق‘‘ ہیں۔ ان کے انشائیوں کو حلقہ ارباب ذوق میں بھی کافی پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس وقت ان کے انشائیوں کے متعلق عام رائے یہ تھی کہ وہ Geneon لکھنے والے ہیں۔ ادبی حلقوں میں ان کا شمار سنجیدہ لکھنے والوں میں ہوتا تھا۔
اس وقت جب وہ انشائیے کی صنف میں طبع آزمائی کر رہے تھے تب اس کے ساتھ انھوں نے افسانے کی صنف میں طبع آزمائی شروع کی۔ انھوں نے بہت سے افسانے لکھے۔ ان کے یہ افسانے مختلف معروف ادبی رسائل میں مختلف اوقات میں شائع ہوتے رہے۔ ان رسائل میں ’’رسالہ ماہ نو‘‘، ’’رسالہ اوراق‘‘، ’’ادب لطیف‘‘، ’’دنیا زاد‘‘، ’’اجرا‘‘، ’’معاصر‘‘، ’’فانوس‘‘ قابل ذکر رسائل ہیں۔ ان رسالوں کے علاوہ دو ہندوستانی رسالوں ’’شب خون‘‘ اور ’’کتاب نما‘‘ میں شائع ہوتے رہے۔افسانے لکھنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اخبارات کے لیے کالم بھی لکھے۔ جن اخبارات میں انہوں نے کالم لکھے وہ ’’روزنامہ جنگ‘‘ اور پندرہ روزہ اخبار ’’ایکسپریس‘‘ ہے۔ روزنامہ جنگ میں انہوں ۱۹۹۹ء ’’دریچہ عالم‘‘ کے عنوان سے کالم لکھے اور پندرہ روزہ اخبار ’’ایکسپریس‘‘ میں ان کے کالم ۲۰۰۰ء میں بھی ’’دریچہ عالم‘‘ کے عنوان سے شائع ہوتے ہیں۔ 

۱۹۸۵ء میں وہ باقاعدہ افسانے کی صنف کی جانب متوجہ ہوئے۔ انہوں نے کل ۴۵ افسانے لکھے۔ جو ان کے دو افسانوی مجموعوں کی صورت میں شائع ہوئے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’انٹیک شاپ‘‘ کے نام سے ۱۹۹۰ء میں شائع ہوا اور دوسرا افسانوی مجموعہ’’ مچھلیاں شکار کرتی ہیں‘‘ کے نام سے ۲۰۰۷ء میں شائع ہوا۔
افسانے کی صنف میں طبع آزمائی کرنے کے ساتھ ساتھ تنقید کے میدان میں بھی امجد طفیل کا ایک اہم نام ہے۔ انھوں نے تنقید کے میدان میں اپنی خدمات سرانجام دیں ہیں۔ انھوں نے تنقیدکام کا آغاز ۱۹۸۵ ء میں کیا۔ ان کی تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کی پہلی تنقیدی کتاب کا نام’’ قراۃ العین حیدر تشخص کی تلاش میں‘‘ ہے۔ اس کتاب کو پاکستان بکس اینڈ لٹریری ساؤنڈز لوئر مال لاہور نے ۱۹۹۱ء میں شائع کیا۔ دوسرای تنقیدی کتاب ’’منیر نیازی فن اور شخصیت‘‘ کے نام سے ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی۔ تیسری تنقیدی کتاب بعنوان ’’ادب کا عالمی دریچہ‘‘ کو شرکت پریس لاہور نے ۲۰۱۲ء نے شائع کیا۔

ان کی پہلی تنقیدی کتاب کی عظیم ناول نگار قراۃ العین حیدر کی تحریروں کے نفسیاتی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ جس میں تشخص کی تلاش کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ امجد طفیل کا ایم۔اے کا مقالہ تھا جو کتابی شکل میں شائع ہوا۔ موضوع اور مواد کے لحاظ سے قراۃ العین حیدر کے حوالہ سے لکھنا ایک مشکل اور دقیق کام ہے، لیکن امجد طفیل اس کام کا بخوبی سرانجام دیا۔ ان کا ادبی سفر کی طرف یہ ان کا پہلا قدم تھا۔جس وجہ سے ان کو خاطر خواہ شہرت ملی۔
ان کی دوسری تنقیدی کتاب ’’منیر نیازی شخصیت اور فن‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ کتاب ادبی معمار اکیڈمی کی اعلیٰ کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کتاب میں امجد طفیل نے منیز نیازی کی شخصیت، سوانح اور فن کے حوالے سے ضروری کوائف فراہم کیے ہیں۔ منیر نیازی کی شاعری پر رائے بھی دی گئی ہے۔ انھوں نے نہ صرف اپنی رائے کا اظہار کیا بلکہ منیر نیازی پر ہونے والی تمام تنقید کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ منیز نیازی کے حوالے سے یہ ان کا اہم اور تفصیلی کام ہے ۔ انھوں نے نہ صرف منیر نیازی کا تعارف کروایا ہے بلکہ اپنے تنقیدی کام کی اہمیت بھی بتائی ہے کہ اردو میں یہ کام کس درجے کی قدروقیمت کا حامل ہے۔منیز نیازی کی سوانح ، شاعری، اسلوب اور ان کے فنی سفر کے متعلق پی۔ایچ۔ڈی کرنے والوں کے لیے یہ کتاب حوالے کے طور پر بہت اہم ہے ۔ 
ان کی تیسری تنقیدی کتاب ’’ادب کا عالمی دریچہ‘‘ ہے۔ یہ کتاب ان کے گزشتہ اٹھارہ، بیس سال کے دوران لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے۔ ان کے یہ مضامین مختلف ادبی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔اس کتاب میں ان کے نو (۹)تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین میں ایک باطنی ربط موجود ہے جس کے باعث انہیں ایک مجموعے میں جمع کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں ان کے پندرہ کالم بھی شامل کیے گئے ہیں۔ جو معاصر ادبی زندگی کی چند اہم کتب سے اردو کے قارئین سے تعارف کرواتے ہیں۔ یہ کام اپنی نوعیت کے اور موضوع کے اعتبار سے بڑا اہم ہے۔ اس کتاب کے ذریعے انہوں نے دنیا کے مختلف بڑے لکھنے والوں کا اردو طبقے سے تعارف کروایا ہے۔ اس کتاب کی اہم بات یہ ہے کہ اس سے پہلے جن لوگوں نے ان عظیم لوگوں کے متعلق لکھا تو انہوں نے ان کا سرسری سا تعارف پیش کیا۔ اس حوالے سے ایک کتاب ’’سو عظیم انسان ‘‘ ہیں۔ اس کتاب میں ان لوگوں کے متعلق سرسری سا تعارف پیش کیا گیا ہے لیکن امجد طفیل اپنی اس کتاب میں ان بڑے لکھنے والوں کے تفصیلی کام، نظریات، خیالات اور افکار کو پیش کیا ہے، ان کے فنی محاسن کا جائزہ بھی لیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف ان کا تعارف پیش کیا بلکہ ان کی تحریروں کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ اس حوالے سے قارئین ان لکھاریوں کی شخصیت اور فن کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

اس کتاب میں تین تخلیق کاروں جن میں مارکیز، میلان کنڈیرا، پائلو کولوکے متعلق تفصیل سے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ تین نقادایڈورڈ سعید، ٹیری ایگلٹن اور میلان کنڈیرا کے نظریات ، افکار اور خیالات کو پیش کیا ہے۔ 
مغربی فکشن کے حوالے سے اگرچہ بہت سے مضامین لکھے گئے ہیں۔ اردو میں جتنے لوگوں نے ایسے مضامین لکھے ہیں۔ امجد ان پر فوقیت رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف نقاد اور تخلیق کاروں کا تعارف کروایا ہے بلکہ ان کے متعلق اپنی رائے بھی پیش کی ہے۔ انہوں نے فکری مباحث تہذیبی حوالے سے کی ہے۔ یہ کام اردو میں ان کے علاوہ کسی نے نہیں کیا۔امجد طفیل ان ناقدین میں سے ہیں جو تہذیب کو کافی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ادب ایک تہذیبی سرگرمی ہے تو اس کا جائزہ بھی ایک تہذیبی سرگرمی کے طور پر لینا چاہیے۔ تنقید ی حوالے سے ان کا اسلوب تجرباتی ہے۔
عالمی تناطر کے پس منظر میں لکھی گئی یہ ایک اہم کتاب ہے۔ انہوں نے جرمنی، فرانس، اٹلی، انگلینڈ اور امریکہ کا منظر نامہ لیا ہے اور اس کو اردو خواہ طبقے سے متعارف کروایا ہے۔ ان کے مضامین اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعہ ہم عالمی منظر نامہ کو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل کرنٹ افیرز کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب نہایت اہم کی حامل ہے۔مشرق اور مغرب میں عالمی منظر نامہ تیزی سے کیوں بدل رہا ہے اور تیزی سے بدلتی ہوئی معاشی ، معاشرتی اور سماجی صورت حال کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ ان افسانوی مجموعوں ، تنقیدی کتابوں اور تنقیدی مضامین کے علاوہ انہوں نے چند مشہور افسانہ نگاروں کی کتابوں کو مرتب بھی کیا ہے۔ 

ان مرتب شدہ کتابوں کی تفصیل کچھ یوں ہے:
نمبر شمارکتاب کا نام

مصنف کا نام
تدوین
شہر کا نام جہاں سے شائع ہوئی
شائع کرنے والے ادارے کا نام
سنِ اشاعت
۱
ابنِ انشاء۔ شخصیت اور فن
اے حمید
امجد طفیل
اسلام آباد
اکادمی بازیافت
۱۹۹۸ء
۲
پاکستان ادب ۲۰۰۶ء


امجد طفیل، محمد سعید شیخ
اسلام آباد
اکادمی بازیافت
۲۰۰۶ء
۳
سعادت حسن منٹو جامع کلیات
سعادت حسن منٹو
امجد طفیل
اسلام آباد
ادارہ ناریٹو
۲۰۱۲ء
۴
قراۃ العین حیدر کے بے مثال ناولٹ
قراۃ العین حیدر
امجد طفیل
لاہور
الحمد پبلی کیشنز
۲۰۱۴ء
۵
عزیز احمد کے بے مثال ناولٹ
عزیز احمد
امجد طفیل
لاہور
الحمد پبلی کیشنز
۲۰۱۴ء
۶
منشاء یاد کے افسانے 
منشاء یاد
امجد طفیل
لاہور
گورا پبلی کیشنز
۱۹۹۷ء
۷
ممتاز مفتی کے ممتاز افسانے
ممتاز مفتی
امجد طفیل منشایاد
لاہور
گورا پبلی کیشنز
۱۹۹۸ء
۸
مسلم نفسیات، چند بنیادی مباحث
اظہر علی رضوی
امجد طفیل
لاہور
ثقافت اسلامیہ
۲۰۱۲ء
۹
کلیات ڈاکٹر محمد اجمل
ڈاکٹر محمد اجمل
امجد طفیل
لاہور
الحمد پبلی کیشنز
۲۰۱۵ء

امجد طفیل دراز قدوقامت، تندرست و توانا جسم، پتلے ہونٹ، روشن اور معصوم چہرہ، مدھم مسکراہٹ، سوئی جاگی کیفیت سے بھرپور آنکھیں، دھیمی چال، نفیس شخصیت کے مالک خوبصورت انسان ہیں۔ امجد طفیل کم سخن ہیں۔ دھیمی لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر گفتگو کرتے ہیں۔ گفتگو کرتے ہوئے اور مسکراہتے ہوئے بھی ان کے چہرے پر ایک گہری سوچ ہوتی ہے۔ ان کو گفتگو میں کمال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں لوگ ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں۔ اپنے پسندیدہ موضوع پہ گھنٹوں ایک ہی نشت میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ وہ جتنے خوبصورت باہر سے ہیں اندر سے بھی اتنے ہی صاف ستھرے ہیں۔ اپنے کام اور پیشے دونوں سے مخلص ہیں۔ وہ بہت اچھے استاد بھی ہیں۔ ایک استاد میں اہم خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنے طلبا کی نفسیات کو سمجھ سکتے ہیں۔ امجد طفیل چونکہ نفسیات کے استاد ہیں، اس لیے وہ اپنے طلبا کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں۔ ان کی اسی خوبی کی وجہ سے ان کے طلبا ان کو بے حد پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ طلبا کی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق ان کی راہنمائی کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے طلبا بخوبی ان کے نقطہ نظر کو سمجھ جاتے ہیں۔ 
ان کے ایک نہایت قریبی دوست ضیاء الحسن ان کے متعلق بتاتے ہیں:
’’امجد طفیل ایک بہترین استاد ہیں۔وہ اپنے مضمون کو بہت پڑھتے ہیں، ابلاغ پہ مکمل گرفت رکھتے ہیں اور اس مکمل گرفت کی وجہ حلقہ اربابِ ذوق کا اثر ہے۔ ادبی حلقوں میں جانے کی وجہ سے وہ بہت پڑھتے تھے اور موضوع پر بہت زیادہ گفتگو کرتے تھے ۔ وہ طلبا کے نفسیات کو جانتے ہیں ‘‘۔ ۳؂

امجد طفیل نہ صرف ایک بہترین استاد ہیں۔ بلکہ ایک بہترین باپ اور شوہر کی حیثیت سے بھی اپنے فرائض کو بھی بخوبی سرانجام دیتے ہیں۔ ایک باپ کی حیثیت سے انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش بہت اچھے انداز میں کی ہے۔ ایک شوہر کی حیثیت سے بھی ان کی بے شمار خوبیاں ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی بیگم فہمیدہ بانو انٹرویو میں بتاتی ہیں کہ:
’’ امجد طفیل بہت اچھے شوہر ہیں۔ نہایت ملنسار ہیں اور وہ نہ صرف ایک اچھے شوہر بلکہ ایک اچھے باپ بھی ہیں۔ اولاد کے معاملے میں بہت حساس ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ضروریات کا خیال کرتے ہیں۔ بہت محبت کرنے والے انسان ہیں۔ہمارے درمیان کبھی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا۔ امجد طفیل اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے ہیں، جو بات کرتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ ہم نہایت خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔ امجد طفیل تنہائی پسند نہیں بلکہ گھر میں سب کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں‘‘۔ ۴؂

امجد طفیل کا حلقہ احباب بہت وسیع ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا رویہ اپنے دوستوں سے نہایت مخلصانہ ہے۔ وہ اپنے دوستوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں اور ان کے بہت تعاون کرتے ہیں۔ ان کے دوستوں کو کسی قسم کی ان کی ضرورت ہے تو امجد طفیل ان کی بھرپور مدد کرتے ہیں۔ حلقہ احباب میں مقبول ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ جب بھی کسی ادبی محفل میں شریک ہوتے تو اپنی علمیت نہیں جھاڑتے اور سامنے بیٹھے ہوئے انسان کو ہرگز احساس نہیں ہوتے دیتے کہ وہ ان سے کم علم ہے۔ امجد طفیل ایک نہایت عاجز انسان ہیں۔ 
اس حوالے سے ان کے دوست ضیاء الحسن ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ:
’’انسان دوستی، محبت اور ہمدردی یہ امجد طفیل کی شخصیت کے بنیادی خواص ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہوجائے کہ ان کے دوستوں کو ان کی کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہے تو فوراََ ان کی مدد کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ دوستوں کے درمیان بیٹھے ہوں تو یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ ان کا علم زیادہ اور سامنے بیٹھے ہوئے انسان کا علم ان سے کم ہے بلکہ ان کے بیٹھنے کا انداز یوں ہوتا ہے کہ برابری کی سطح ہوتی ہے۔وہ عوامی انداز میں لوگوں سے گفتگو کرتے ہیں، نہایت دوستانہ اور محبت کی فضاء میں لوگوں سے ملتے ہیں اور مختلف بحث و مباحث میں شریک ہوتے ہیں۔ ان کی ذہنی تربیت میں ان مباحثوں کا ایک اہم کردار ہے‘‘۔ ۵؂

امجد طفیل انہیں خوبیوں کی وجہ سے ہر خاص و عام میں یکساں مقبول ہیں اور ہر دل عزیز ہیں۔ اپنے انتہائی مصروفیت کے باوجود بھی جہاں کہیں بھی کسی کو کسی حوالے سے مدد کی ضرورت ہو تو امجد طفیل جہاں تک ممکن ہو ان کی مدد کرتے ہیں۔ امجد طفیل کا مزاج درویشانہ ہے اس کی وجہ ان کا گہرا اور وسیع مطالعہ ہے۔ 
اس سلسلے میں ضیاء الحسن ایک انٹرویو کے ذریعے بتاتے ہیں:
’’امجد طفیل بہت زیادہ مطالعہ کرنے والے انسان ہیں۔ اور اس مطالعے کی وجہ سے ان کے مزاج میں ایک فقیری اور درویشی پیدا ہوئی ہے، میں بلامبالغہ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اس نسل کے دوستوں میں سے ان سے زیادہ پڑھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا ہے۔ ان کے مطالعے میں تنوع ہے، نفسیات اور ادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ تنقید اور جدید تھیوری سے بھی کافی حد تک دلچسپی رکھتے ہیں۔‘‘ ۶؂

امجد طفیل تقریر کے فن سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کی گفتگو میں روانی ہوتی ہے۔ وہ تنقیدی بحث و مباحثہ میں خاص طور پر حصہ لیتے ہیں۔ اس حوالے سے ضیاء الحسن ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ:
’’ ہم بہت سے دوست اکٹھے حلقہ ارباب ذوق میں شریک ہوا کرتے تھے۔ ہم دوستوں میں سے جس شخص نے سب سے پہلے گفتگو شروع کی۔ ہم دوستوں میں سے جس شخص نے سب پہلے گفتگو شروع کی وہ امجد طفیل تھے۔ امجد طفیل کی گفتگو کو اس وقت کافی اہمیت حاصل تھی۔ ادبی حلقوں میں ان کا شمار سنجیدہ لکھنے والوں میں ہوتا تھا۔وہ نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی جہاں جہاں اردو ادب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں وہ ان کے کام سے واقف ہیں اور ان کام کی تعریف کرتے ہیں۔ خاص طور پر ان کی تنقیدی صلاحیتوں کے مطلق ہیں‘‘۔۷؂

ان کے مزاج میں نرمی ہے۔ مردم شناس ، سادہ مزاج اور فراخ دل ہیں۔ دنیا کی منافقت اور ریاکاری سے ان کو کوئی سروکار نہیں۔ دین و دنیا دونوں کو ساتھ لے کر چلنے والے انسان ہیں۔ امجد طفیل کے مزاج میں ایک اضطرابی کیفیت بھی ملتی ہے جو ان کی تخلیقی عمل میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ 
اس سلسلے میں امجد طفیل اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں:
’’مجھ پر ایک اضطرابی کیفیت طاری رہتی ہے اور یہ میرے تخلیقی عمل کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کہانی لکھنے، پڑھنے سے اگرچہ مجھے اطمینان ملتا ہے۔ مگر یہ اضطرابی کیفیت تھوڑی دیر کے لیے ہی ہوتی ہے اس کے بعد دوبارہ وہی بے چینی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ کیونکہ اگر ایک ہی بار سارا اطمینان حاصل ہوجائے تو تخلیقی عمل رک جاتا ہے‘‘۔ ۸؂

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اضطرابی کیفیت ان کو معلوم سے نامعلوم اور نامعلوم سے معلوم کی طرف کھوج میں لگائے رکھتی ہے۔ امجد طفیل مطالعے کے نہایت شوقین ہے ان کو جہاں کہیں بھی وقت ملتا ہے وہ مطالعہ شروع کر دیتے ہیں ۔
اس حوالے سے ان کے دوست ضیاء الحسن انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ:
’’ اس زمانے میں جب امجد طفیل حلقہ ارباب ذوق سے منسلک ہوئے تو ان میں سب سے اہم چیز جو مجھے محسوس ہوئی وہ علم کے لیے ان کی آزو مندی تھی۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ جہاں کہیں بھی ان کو وقت ملتا ہے وہ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں‘‘۔ ۹؂

امجد طفیل کا ایک بنیادی وصف یہ ہے کہ وہ ایک تہذیبی انسان ہیں۔ ان کی کہانیوں میں تہذیبی پس منظر واضح نظر آتا ہے۔ 
اس سلسلے میں ضیا ء الحسن ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں۔ 
’’ امجد طفیل کا وصف ہے کہ وہ ایک تہذیبی انسان ہیں۔ وہ تہذیب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔کیونکہ تہذیب ایک ایسا ادارہ ہے جس میں مذہب ، اقدار اور نظریہ حیات آتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے استادوں سراج منیر اور سجادباقر رضوی کا عمل دخل ہے۔ کیونکہ یہ دونوں ایسے لوگ ہیں جن کو تہذیب خاص اسلامی تہذیب سے گہری دلچسپی ہے‘‘۔ ۱۰؂

امجد طفیل ایک صاحب مطالعہ اور صاحب رائے انسان ہیں۔ ان کی تنقیدی گفتگو اور لیکچر کو اہمیت حاصل ہے۔ 
اس حوالے سے ان کے ایک دوست شفیق خان انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ:
’’امجد طفیل صاحب مطالعہ اور صاحب رائے انسان ہیں۔ ان کی اہمیت کو کافی اہمیت دی جاتی ہے۔ وہ نہ صرف مطالعہ کرتے ہیں بلکہ مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے نظریہ پر ڈٹے رہتے ہیں۔ اگر ان کے دلائل کو رد کر دیا جائے تو دوسروں کے موقف کو مان لیتے ہیں ورنہ وہ کسی مفاد یا تعلق کی بنیاد پر اپنے موقف سے نہیں ہٹتے‘‘۔ ۱۱؂

امجد طفیل افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی شعور رکھتے ہیں۔ ان کے نظریات مثبت اور تعمیری ہیں۔ امجد طفیل انسانوں کے درمیان محبت، جمالیات اور خیر کے طالب ہیں۔ امجد طفیل کی گفتگو میں فقرے اور جملے ان کے اسلوب کی طرح سادہ ہیں۔ ان کے جملوں میں طنز نہیں ہوتا۔ ان کی شخصیت میں سحر اور کشش ہے جو ہر کسی کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔
امجد طفیل کی شخصیت کے حوالے سے شاہین زیدی بتاتی ہیں کہ:
’’ امجد طفیل کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اپنے سے وابستہ لوگوں کی صلاحیتوں کی کھوج لگاتے ہیں اور انہیں معاشرے میں بہتر کردار ادا کرنے کی جانب گامزن ہونے کا مشورہ بھی دیتے ہیں‘‘۔ ۱۲؂

امجد طفیل اپنے کام سے بہت مخلص ہیں۔ وہ ہر لمحہ اپنے شاگردوں کی اصلاح کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ 
اس حوالے سے شاہین زیدی بتاتی ہیں:
’’امجد طفیل کا شمار اساتذہ کی اس تنظیم سے ہے جو اپنے پیشے کو مقدس سمجھتے ہیں اور اپنے طالب علموں کے کردار، گفتار اور اخلاق کو بہتر سے بہتر کرنے کی دھن میں مگن ہے اور اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے ہیں‘‘۔ ۱۳؂


حوالہ جات

۱۔ راقم الحروف استفسار، از: امجد طفیل، بہ مقام: علامہ اقبال ٹاؤن ، لاہور،مورخہ:۲۰ فروری ۲۰۱۶ء ۔
۲۔ ایضاََ
۳۔ راقمہ کا ضیاء الحسن سے ٹیلی فون کے ذریعے سے انٹرویو، مورخہ: ۱۷ مئی ۲۰۱۶ء، لاہور۔
۴۔ راقمہ کا امجد کی طفیل کی بیوی فہمیدہ بانو سے ٹیلی فون کے ذریعے سے انٹرویو، مورخہ: ۱۷ مئی ۲۰۱۶ء، لاہور۔
۵۔ راقمہ کا ضیاء الحسن سے ٹیلی فون کے ذریعے سے انٹرویو، مورخہ: ۱۷ مئی ۲۰۱۶ء، لاہور۔
۶۔ ایضاََ
۷۔ ایضاََ
۸۔ راقم الحروف استفسار، از: امجد طفیل، بہ مقام: علامہ اقبال ٹاؤن ، لاہور،مورخہ:۲۰ فروری ۲۰۱۶ء ۔
۹۔ راقمہ کا ضیاء الحسن سے ٹیلی فون کے ذریعے سے انٹرویو، مورخہ: ۱۷ مئی ۲۰۱۶ء، لاہور۔
۱۰۔ ایضاََ
۱۱۔ راقمہ کا شفیق خان سے ٹیلی فون کے ذریعے سے انٹرویو، مورخہ: ۱۷ مئی ۲۰۱۶ء، لاہور۔
۱۲۔ راقمہ کا شاہین زیدی سے ٹیلی فون کے ذریعے سے انٹرویو، مورخہ: ۱۸ مئی ۲۰۱۶ء، لاہور۔
۱۳۔ ایضاََ

Comments

Popular posts from this blog

منٹو کی افسانہ نگاری میں عنوانات کی اہمیت

افسانہ کے فن میں عنوانات کی اہمیت