ردولساّنیات
سامی خاندان:
مشرق وسطی کی اصلا زبانوں سے متعلق ہے۔ ایران کا مغربی حصۃ سامی خاندان کے زیر اثر ہے۔ ترکی بھی شامل ہے جنوبی اور مشرقی حصہ بھی سامی خاندان میں شامل ہے سامی خاندانوں کی سب سے بڑی زبانیں عربی اور عبرانی ہیں اس کے علاوہ دوسری مختلف زبانوں میں سریائی،آرامی، کلدانی ، ایتھوپیائی ، با بلی وغیرہ شامل ہیں۔ ان زبانوں کی تعداد 26 ہے ۔
عربی اور عبرانی:
ٓٓآج سے ۵۶ یا۶۶سال پہلے عبرانی زبان تقریبا ختم ہو چکی تھی اب پھر سے اسرائیل نے اسے سرکاری زبان کا درجہ دیکر دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔شمال مشرقی ا فریقہ کے بعض خطوں(مصر، سوڈان، حبشہ) میں بھی اس زبان کی بولیاں اور زبانیں رائج ہیں۔ اب اس خاندان کی دو ہی زبانیں زندہ ہیں ایک عربی اور دوسری عبرانی جس نے جزیرہ نما عرب سے باہر بھی علمی اور لسانی فیض پہنچایا ہے اور کسی قدر بین الاقوامی زبانوں میں بھی شامل ہوئی ہے۔اقوام متحدہ نے اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی زبان کادرجہ دیا ہے۔دوسری زبان عبرانی ہے جو بول چال کی حیثیت سے ختم ہو چکی تھی اور یہودیوں کی مذہبی زبان اور مذہبی کتب اور صحیفوں میں موجود تھی اور اب اس کا احیاء ہو چکا ہے اب اسے اسرائیل کی سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔
بعض علمائے لسانیات سامی زبانوں کو تین بڑی شاخوں میں تقسیم کرتے ہیں۔
-1شمال مشرقی شاخ
اس شاخ کی قدیم ترین اور معروف زبان اکادی یا آشوری تھی جسے بابلی بھی کہتے تھے یہ عراق کے قدیم عہد کی زبان تھی اس کی تاریخ کا سراغ 8300 ق م تک لگایا گیاہے اس کی یادگاریں پیکانی رسم الخط میں محفوظ رہ گئی ہیں۔ ۶۲۵ق م میں بابل کے سقوط کے بعد بتدریج آرامی نے اس کی جگہ لے لی البتہ مذہبی زبان کی حیثیت سے وہ سن عیسوی کے آغاز تک اپنی ارتقاء یافتہ صورت میں مروج رہی ۔آرامی کی کئی بولیاں تھیں جو اکادی زبان کے مشرق اور فونیقی اور عبرانی کے ارد گرد بولی جاتی تھی ان میں کلدانی اور سریانی قابل ذکر ہیں۔ کلدانی زبان تورات کی وجہ سے کلدانی یہودیوں کی مقدس زبان سمجھی جاتی تھی۔سریانی زبان ابتدائی مسیح لٹریچر کی بدولت عیسائیوں کے نزدیک متبرک تھی۔ چوتھی اور ساتویں صدی کے دوران آرامی زبانوں کو اچھاخاصا فروغ حاصل ہوا اور انہوں نے اکادی فونیقی اور عبرانی کی جگہ لے لی لیکن ظہور اسلام کے بعد عربی کے فروغ اور مقبولیت کی وجہ سے یہ زبانیں زوال پزیر ہوئیں اور رفتہ رفتہ متروک ہو گیءں۔
-2وسطی یا کنعانی زبانیں
وسطی اور کنعانی زبانوں کے دو زمرے ہیں
(۱) کنعانی اور فونیقی زمرہ
قدیم ادوار میں فونیقی قوم کو بڑی اہمیت حاصل تھی تجارت، جہاز رانی اورخطق پسندی کی بدولت ان کی جغرافیائی معلومات میں اضافہ ہوا اور ان کی نو آبادیہ تہذیب و تمدن کا مرکز بننے لگی انہوں نے رکنی طرز تحریر کو فروغ دیا وہ حروف تہجی کے بھی موجد تھے انہوں نے تکلمی آوازوں کی فونیقی حیثیت کو پہلی بار محسوس کر کے ان کیلئے جدا گانہ علامتیں وضع کیں۔دنیا کے مختلف رسم الخط کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح فونیقی حروف تہجی سے جا ملتے ہیں پہلی صدی ق م میں آرامی زبان کا اس پر غلبہ ہونے لگا اور رفتہ رفتہ وہ قعر گمنامی میں کھو گئیں۔
(۲) عبرانی زبان کا زمرہ
عبرانی فلسطین اور اس کے نواح کی زبان تھی اس کی قدیم یادگارعہدنامہ عتیق ہے جسے ایک ہزار سال ق م سے پہلے کا سمجھا جاتا ہے پانچویں صدی ق م میں اس کے قدیم متون کی تخلیق و تقویم اور تدوین کی گئی۔تیسری صدی ق م کی بائبل کی عبرانی زبان یہودیوں کی مقدس عبرانی زبان سے بہت مختلف ہے کیونکہ اس وقت تک آرامی زبان بہت فروٖغ پا چکی تھی۔ عبرانی کی ایک بولی سامری بھی رہی ہے جس میں آرامی عناصر کا اچھا خاصا غلبہ تھا اس کی تحریری دستاویز کا تعلق پہلی صدی عیسوی سے ہے رفتہ رفتہ سامری بھی متروک ہو گئی اور صرف مذہبی تعلیم کا ذریعہ رہ گئی۔ عبرانی زبان مردہ ہو چکی تھی اور اس کے بولنے والے یہودی عالم اطراف میں بکھر کر دوسری زبانیں استعمال کرنے لگے تھے تاہم عبرانی زبان کو مذہبی اور مقدس زبان کی حیثیت حاصل رہی اسرائیلی قومیت نے اس کا احیاء کیااور یہودی متن کی تحریک چلائی گئی عالمی طاقتوں کی مدد اور سازشوں سے اسرائیلی مملکت وجود میں آئی اس طرح رفتہ رفتہ عبرانی کو نئی زندگی مل گئی اور اسرائیل کی قومی زبان کی حیثیت سے زندہ ہوئی لیکن جدید عبرانی کی لسانی روایات کا تسلسل نہیں ملتا
-3جنوب مغربی سامی شاخ
سامی خاندان کی یہ شاخ عربی کی مختلف صورتوں پر مشتمل ہے اسے تین لسانی زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے اولاً ۔ وسطی عربی ثانیاً۔جنوبی عربی اور ثلاثاً۔ایتھوپی یا حبشی۔کچھ علماء مثلا ڈاکٹر لائٹنر نے شمالی افریقہ کی لیبیائی اور بربری بولیوں اور قدیم مصری کو بھی اس شاخ میں شامل کیا ہے۔
جنوبی عربی میں زمرہ سبائی ،معینی، حضر موتی، مہری، شخوری بولیوں پر مشتمل ہے یہ زبانیں یمن حضر موت اور جزیرہ سقوطرہ سے تعلق رکھتی ہیں بعض علماء انہیں عربی سے مختلف لسانی گروہ قرار دیتے ہیں۔ایتھوپیائی یا حبشی کی متعدد بولیاں ہیں جن میں ارد گرد کی حامی زبانوں کے کچھ عناصر داخل ہو گئے ہیں ان بولیوں میں جعز، امہری، حروی اور تگری نمایاں ہیں۔اولاً ذکر نے ادبی حیثیت حاصل کر لی ہے اور اسے حبشہ کے انسانوں کی مذہبی زبان کہا جاتا ہے امہری نے پورے ملک میں عام اور مشترکہ زبان کی حیثیت حاصل کر لی ہے ان زبانوں میں وسطی عربی کویہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ نہ صرف جنوب مغربی شاخ کی اہم زبان ہے بلکہ اسے پورے سامی زبانوں کی نمائندہ زبان قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں قدیم سامی صوتی نظام کم و بیش اصل حیثیت سے باقی رہ گیا ہے۔ عربی کی قدیم ترین دستاویزوں کا تعلق تیسری اور چوتھی صدی عیسوی سے بتایا جاتا ہے اس کے چالیس اسماء معرفہ ۳۵۸ سے ۶۲۶ ق م کے آشوری بیانیات میں ملتے ہیں تیسری اور چھٹی صدی عیسوی کے دوران جزیرہ نماعرب میں بہت سی ایسی بولیاں رائج تھیں جو قدیم عربی سے خاصی مختلف ہو چکی تھیں لیکن اُس عربی سے قدیم تھیں جو نجد کی زبان تھی اس دوران یہودیوں اور عیسائیوں سے روابط کی وجہ سے عربوں نے بہت سے آرامی کلموں کو بھی استعمال کرنا شروع کر دیا تھا ۔ عربی اور شمالی یا مغربی سامی زبانوں آرامی اور عبرانی وغیرہ میں کچھ مشترک خصوصیات ہیں جو جنوبی عربی اور ایتھوپی میں نہیں ملتی۔
لسانی خصوصیات کی بنیاد پر عربی زبان کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے (ا) مشرقی گروہ: جس کا مرکز خلیج فارس کا عرب ساحل ہے (ب) مغربی گروہ:جس میں حجازی بولیوں کے علاوہ طے اور جنوب مغرب کی بولیاں شامل ہیں ۔ کلاسیکی عربی کے حسبِ ذیل مواخذات ہیں:۔
۱۔ قبل از اسلام اور آغاز اسلام کی شاعری
۲۔ قرآنِ مجید
۳۔ رسولِ کریمﷺ اور خلفائے راشدین کے رسمی خطوط اور خطبات
۴۔ احادیثِ مبارکہ
۵۔ ایّام العرب کی نثر
قبل از اسلام کی شعری زبان میں بدوی روایت ملتی ہے جو قرآن مجید کی زبان سے مختلف تھی قرآن مجید قریش کی زبان میں نا زل ہوا یہ زبان لسانی اعتبار سے عربی کی تمام بولیوں پر فوقیت رکھتی تھی قرآن مجید کی بدولت اس کے اسالیب میں تنوّع ، حسن، اثر،ذوق اور استدلال پیدا ہوا احادیث کی زبان میں سادگی فصاحت اور روز مرّہ کی پابندی ہے ظیورِ اسلام کے بعد ادبی عربی کے ارتقاء کا نیا دور شروع ہو عربوں کی فتوحات کی بدولت عرب غیر عرب علاقوں میں پہنچ گئے ۔اسلامی ملکوں میں اسے مذہبی زبان کی حیثیت حاصل ہوئی یہ شام و مصر کی قومی زبان بھی بن گئی ۔ بہت سے ملکوں مثلاً ایران، ترکی اور پاکستان کے تہذیب پر اس کے گہرے اثرات مرتّب ہوئے شمالی افریقہ کے اکثر ممالک میں اس نے مقامی زبانوں کی جگہ لے لی ہے۔ فارسی ، ترکی ، اردو اور ملائی اور سواحلی وغیرہ عربی کے بہت سے کلموں کو ہی نہیں بعض صرفی خصوصیات کو بھی اپنا لیا ہے۔ کچھ عربی آوازیں بھی ان زبانوں میں داخل ہو گئی ہیں مغربی دنیا میں اعداد لکھنے کا طریقہ بھی عربی سے لیا گیا ہے مغربی زبانوں خصوصاً اسپنی ،انگریزی اور فرانسیسی وغیرہ میں عربی کے دخیل کلموں کی خاصی تعداد ملتی ہے عربی کی تجدید اور توسیع کی مہمیں بھی چلتی رہی ہیں اگرچہ بول چال میں ٖخاصے انحرافات ہو چکے ہیں تاہم صرف و نحو میں قدیم بنیادی خصوصیات قائم ہیں اور عرب ملکوں میں تحریر ی عربی کی یکسانیت پائی جاتی ہے۔
*****
اردو زبان کے آغاز کے بارے میں مختلف نظریات
۱۔ پروفیسرحافظ محمود شیرانی کا نظریہ (پنجاب میں اردُو ۷۲۹۱ ء)
حافظ محمود شیرانی کا ابتدائی تعلق راجھستان سے تھاانہوں نے اپنے نظریے میں تین طرح سے دلائل دیئے ہیں۔
۱۔تاریخی دلائل ۲۔ قواعد صرف و نحو (لسانی دلائل) ۳۔ ذخیرہ الفاظ
اردوکے آغاز کے بارے میں ماہرین زبان میں اختلافات پائے جاتے ہیں بیشتر محققین و ماہرین لسانیات اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداء برّصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے مشروط ہے اردو کی تاریخ اور ماخذات کے بارے میں قدیم تذکرے، مغرب کے مستشرقین، متوسط عہد کی تحریریں اور دورِ جدید کے تحقیقی مباحث بہت اہم ہیں اس سلسلے میں بیسویں صدی عیسوی میں خاصا کام ہوا ہے مغربی ماہرین لسانیات کیساتھ ساتھ برّصغیر پاک و ہند کے ماہرین نے اس سلسلے میں تحقیقی کام کیا ہے اس سلسلے میں حافظ محمود شیرانی کی تحقیق ان کی کتاب "پنجاب میں اردو" میں دیکھی جا سکتی ہے وہ اردو کی جنم بھومی پنجاب کو قرار دیتے ہیں ان کے خیال میں اردو کی ساخت وضع، بناوٹ اور ٖصوتی انداز برج بھاشا یا پالی سے زیادہ پنجابی کے نذدیک ہے اور اس نظریے کو ثابت کرنے کیلئے انہوں نے تاریخی اور لسانی پہلوؤں کو اپنے نظریے کی بنیاد بنایا ہے
۱۔تاریخی پہلو
تاریخی حوالے سے ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ محمود غزنوی نے ہندوستان میں فتوحات حاصل کیں لیکن صرف پنجاب کو ہی اپنی سلطنت میں شامل کیااور لاہور کو اس کا مرکز بنایا غزنوی خاندان نے تقریباًپونے دو سو سال تک پنجاب پر حکومت کیا اس دوران لاہور اسلامی تہذیب و تمدّن کامرکز بن گیا۔ غزنویوں کی فوج میں ترک،افغان، خلجی اور ہندوستان کے لوگ شامل تھے چنانچہ اس سر زمین میں سب سے پہلے وہ ماحول بنا جہاں اردو کے اولّین نقش نمودار ہوئے
تاریخ ادب اردو سے معلوم ہوتاہے کہ لاہور ہی میں اردو کے پہلے شاعر خواجہ سعد سلیمان مسعود دکھائی دیتے ہیں بدقسمتی سے ان کا کلام اب تک دستیاب نہیں ہو سکا چونکہ اس دور میں لاہورہندوستان کا دارالحکومت تھا لہذا اس خطے کی زبان کو اس عہد کی حکومت اور مسلمانوں نے ترجیع دی ہو گی یہ دور خاصا طویل تھا اس لیئے فارسی، ترکی اور عربی بولنے والے مسلمانوں اور ہندوستان کی مختلف زبانیں بولنے والی اقوام کی یکجائی سے ایک نئی زبان کا پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا۔ اس دور میں البیرونی نے ہندی اور سنسکرت زبانیں سیکھیں۔ محمود غزنوی کے دربار می ہندی پنجابی کی ترجمان ایک جماعت غزنی میں موجود تھی ان میں تلک اور برام کے نام تاریخ میں ملتے ہیں یہ لوگ فارسی اور پنجابی بھی جانتے تھے غوریوں کے عہد میں جب پایہ تخت لاہور سے دلّی منتقل ہوا تو پنجابیوں کی ایک کثیر تعداد وہان پہنچ گئی ان میں فوج اور انتظامیہ کے علاوہ تاجر پیشہ لوگ بھی شامل تھے یہ فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے ضرور کوئی زبان بھی اپنے ساتھ لے گئے ہوں گے جسے وہ قیام پنجاب کے زمانے میں بولتے رہے ہوں گے یہی زبان رفتہ رفتہ اردو کی شکل اختیار کر گئی۔
۲۔ لسانی پہلو (اردو اور پنجابی میں مماثلت)
(۱) حافظ شیرانی نے دکنی اور نئی پنجابی کے صرف و نحو کا موازنہ کرتے ہوئے بعض مشترک خصوصیات اور بعض اختلافات کو لسانی حوالے سے واضع کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ قدیم اردو پنجابی سے تکلمی ہے انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں پنجابی اور اردو میں درج ذیل مشابہتیں اور مماثلتیں تلاش کی ہیں۔
۱۔ دونوں زبانوں میں مصدر کا قاعدہ ایک ہے امر کے آخر میں "نہ"لگادیتے ہیں جبکہ قدیم دور میں دونوں زبانوں میں اس کی املاء"نا " تھی۔
۲۔تذکیرو تانیث کے قواعد دونوں زبانوں میں ایک جیسے ہیں مثلاً ایسے الفاظ جو "ا" پر ختم ہوں وہ تانیث کی حا لت میں " ی" پر ختم ہوتے ہیں مثلاً بکرا، بکری۔ گھوڑا، گھوڑی ۔ کالا کالی یہ دونوں میں مشترک ہیں۔
(۲)جب اسم مذکر حروفِ علت کے سوا حروفِ صحیح پر ختم ہو تو دونوں زبانوں میں تانیث کیلئے "نی" یا "انی"کا اضافہ کر دیا جاتاہے مثلاً مغل ، مٖغلانی ۔ لوھار، لوھارنی اگر مذکر "ی"پر ختم ہو تو تانیث میں " ی"کو " ن"سے تبدیل کر دیا جاتا ہے مثلاً مراثی سے مراثن اور بھائی سے بہن وغیرہ وغیرہ۔
(۳)اعلام و اسماء اور اسمائے صفات دونوں زبانوں میں "ا"پر ختم ہوتے ہیں جبکہ برج بھاشا میں یہ "و "پر ختم ہوتے ہیں سندھی میں بھی یہ "و"پر ختم ہوتے ہیں برج بھاشا سے اردو پنجابی کے زیادہ قریب ہے مثلاً منڈا۔ لڑکا، اچا۔ اونچا وغیرہ جبکہ برج بھاشا میں منڈا کی بجائے چھوہرو اور اونچو بہتو وغیرہ استعمال ہوتے ہیں۔
(۴) اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں اسمائے صفات تذکیرو تانیث اور داحد جمع میں اپنے موصوف کے مطابق ہوتے ہیں اچھا کرتاہے اچھے کرتے ہیں اسی طرح واحد جمع میں ابھی ہے۔
(۵)خبر اور تذکیرو تانیث واحد جمع میں مبتدا کے موافق آتی ہے جیسے گھوڑاآیا پکی سڑک یہ دونوں زبانوں میں ایک جیسے ہیں
(۶)فعل تذکیروتانیث اور داحد جمع دونوں میں اپنے فاعل کے مطابق استعمال ہوتا ہے جیسے بلی آئی تانگہ چلا۔
(۷)دونوں زبانوں میں اضافت اپنے فاعل کی تذکیروتانیث اور داحد جمع کے مطابق ہوتی ہے ۔
(۸)ماضی مطلق دونوں زبانوں میں ایک طرح کا ہے مثلاً کیا اور کہتا وغیرہ۔
(۹)ماضی بعید میں بھی دونوں میں توابع کی تعریف سے بنتاہے۔
(۰۱)ماضی ناتواں میں بڑا فرق یہ ہے کہ پنجابی میں "د"ہے وہا ں اردو میں "ت"بن گئی مثلاً چلتا وغیرہ۔
(۱۱)ماضی احتمالی دونوں میں ایک جیسا ہے۔
(۲۱) مضارع دونوں زبانوں میں ایک ہے
(۳۱)فعل حال کی تعریف دونوں زبانوں میں ایک ہی اصول پر ہے۔
(۴۱)مستقبل کا اصول دونوں زبانوں میں ایک ہے یعنی داحد جمع میں" گا "کے اضافے سے بنتا ہے لیکن لہندا پنجابی میں ایسا نہیں ہے۔
(۵۱)فعل امر کا قاعدہ دونوں زبانوں میں بالکل ایک جیسا ہے۔
(۶)ندائیہ اور فدائیہ دونوں میں ایک جیسے ہیں ۔
(۷۱)فعل لازم اور متعددی کا ایک ہی اصول ہے متعددی بالواسطہ کا بھی ایک جیسا قاعدہ ہے۔
(۸۱)معروف و مجہول دونوں کا طریقہ ایک جیسا ہے
(۹۱)امدادی افعال کے ذریعے سے مختلف مقاصد کے اظہا ر کیلئے افعال مرکب بنا لینے کا طریقہ دونوں میں ایک جیسا ہے۔
(۰۲)پنجابی زبان میں نفی کے وہی کلمے آتے ہیں جو کسی زمانہ میں اردو میں بھی مستعمل تھے مثلاً "نا" اور "ناں"اسی طرح نہہ ناہی وغیرہ۔
*****
۲۔ نصیرالدین ہاشمی کا نظریہ (دکن میں اردو) ۳۲۹۱ء
نصیرالدین ہاشمی نے اردو کے آغاز کے بارے میں اپنے نظریات اپنی مشہور کتاب "دکن میں اردو"میں تحریر کئے ہیں ان کی یہ کتاب ۳۲۹۱ء میں طبع ہوئی اس کتاب کی رو سے ان کی تحقیق یہ ہے کہ اردو کا آغاز و ارتقاء دکن سے ہوا۔اس سلسلے میں ان کے نظریات کا خلاصہ ذیل میں دیا جاتاہے۔
۱۔ عرب تاجر اور دکن کے ساحلی علاقے
ہاشمی صاحب لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے فتح سندھ سے بہت پہلے جنوبی ہند کے سواحل پر عربوں کی آمدورفت تھی اور جنوبی ہند سے مراد دکن ہے یہ آمدورفت زیادہ تر تجارت کی غرض سے تھی قبل از اسلام کے زمانے سے بہت پہلے عربوں کے تجارتی جہاز بحیرہ عرب کو عبور کر کے دکن کے ساحلوں تک آتے جاتے تھے چناچہ دکن میں مالا بار کے علاقے میں عربوں نے مستقبل بستی قائم کر لی تھی جہاں بہت سے عرب قبیلے آباد ہوگئے اس کے علاوہ بھی دکن کے ساحلوں پر عربوں کی چھوٹی چھوٹی تجارتی بستیاں آباد تھیں ۔عرب اور عرب نژاد یہودی بحری تجارت کے ذریعے ان علاقوں سے مال لے جاتے اور لے آتے تھے۔باہمی لین دین سے عربی زبان کے الفاظ دکن کی بولیوں میں شامل ہو گئے اس طرح اردو کا بیج انہی دکنی ساحلی علاقوں میں بویا گیا جس میں ہندوستانی زبانوں اور عربی فارسی زبانوں کی آمیزش سے آنے والے دور میں ایک نئی زبان وجو د میں آئی اس ضمن میں ماہرِ لسانیات ٖڈاکٹر تارا چند کا کہنا ہے"ساتویں صدی میں ایرانی اور عرب تاجر ہندوستان کے مغربی ساحل کی مختلف بندرگاہوں پر بڑی تعداد میں آباد ہوئے اور انہوں نے ہندوستان کی عورتوں سے شادیاں کیں خاص طور پر مالا بار کی یہ آبادیاں بڑی اور اہم تھیں ۔رفتہ رفتہ مسلمانوں کا اثر تیزی سے بڑھنے لگا۔مسلمانوں کو ساحل مالا بار میں آباد ہوئے ۰۰۱ سال سے اوپر ہو چکے تھے تاجروں کی حیثیت سے ان کا خیر مقدم کیا جاتا تھا اورآباد کاری اور خریداراضی اور اپنے مذہب پر اعلانیہ عمل کرنے کی سہولتیں بہم پہنچائی جاتی تھیں" (ڈاکٹر تارا چند،اسلام کا ہندوستانی تہذیب پر اثر، ص ۷۵۔۸۵)
مالا بار کے علاقے کے یہ عرب مسلمان موپلے کہلاتے تھے یہ نام ان کیلئے عزت کا لقب سمجھا جاتا تھا۔ یہ اور اسی نوع کے دیگر شواہد سے معلوم ہوتاہے کہ جنوبی ہند کے ساحلی شہروں اور بستیوں میں عربوں کی آمدورفت ظہورِ اسلام سے قبل شروع ہو چکی تھی اس طرح عربوں اور ہندوستانیوں کے باہم میل جول سے جہاں عربوں نے یہاں کی مقامی زبانیں سیکھیں وہاں ان دکنی ساحلی علاقوں کے مقامی لوگوں کی گفتگو میں بھی بہت سے عربی لفظ جاری ہو گئیاس بنا پر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سندھ میں مسلمانوں کہ آمدسے کہیں پہلے اہل دکن کیلئے عربی زبان اور اسلام اجنبی نہیں تھے انہی ساحلی علاقوں میں وہ ابتدائی ماحول بناجس نے عربی اور مقامی زبانوں کی آمیزش سے اردو کا خمیر تیار کیا بعد ازاں دکن پر فارسی کے پروردہ مسلمان حکمران قابض ہوئے تو زبان میں فارسی عنصرنمایاں ہو گیا اس پس منظر اور عرب ہند تعلقات کی قدامت سے واقفیت اس لئے ضرووری ہے کہ جنوبی ہندمیں اردو کی تخم ریزی اور بعد ازاں اردو ادب کی آبیاری ان ہی محرکات کا نتیجہ تھی۔ شمالی ہند والوں کیلئے مدتوں تک یہ امور مخفی رہے اسکی وجہ ہندوستان کی وسعت کے ساتھ ساتھ ہند کو شمالی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کرنے والے کوہ بندھیا چل کا نا قابلِ گزر ہونا تھا۔صدیوں پہلے جبکہ وسائل نقل و حمل نہ ہونے کے برابر تھے گھنے جنگلات اور ایک طویل سلسلہ کوہ کو عبور کرنا جان جوکھم کا کام تھا۔
۲۔دکن پر مسلمانوں کا قبضہ اور اردو زبان کا ارتقاء
سلطان جلال الدین فیروز خلجی کے بھتیجے اور داماد علاؤالدین خلجی نے ۴۹۲۱ء میں دکن پرپہلا حملہ کیا تھا اس کے قابل سپہ سالار ملک کافور نے دکن میں فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا اور بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا اس سے شمالی اور جنوبی ہند میں سیاسی روابط کا آغاز ہوا جس کے اثرات زبان پر بھی پڑے۔۶۲۳۱ء میں سلطان محمد تغلق نے دہلی سے سات سو میل دور دکن کے شہر دیو گڑھی کو دولت آباد کے نام سے دہلی کی بجائے سلطنت کا پایہ تخت بنایا اور دہلی کی پوری آبادی کو وہاں منتقل ہونے کا حکم دیامگر اسے جلد ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اوردہلی کو دوبارہ دارالحکومت بنا دیالیکن دہلی کی کثیر آبادی دولت آباد میں ہی قیام پذیر رہی جس سے دکن کے مرکزی حصے میں محاورہ دہلی کی آمداس سرزمین اردو کے اس انداز کی آبیاری کی جسے تاریخ میں دکنی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے دکن کی مقامی بولیوں میں مرہٹی،تامل، تلیگو،اور بھاشا وغیرہ میں عربی کے پہلے ہی الفاظ کی کافی آمیزش ہو چکی تھی۔سلاطین دہلی کی فتوحات سے فارسی نے بھی اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا اور یوں ان سب کے ملاپ نے اردو کی مخصوص صورت ہی نہ متعین کی بلکہ ادبی تخلیقات کے لئے سانچے بھی مہیا کر دیئے۔
دکن بہت کم عرصہ تک شمالی ہندوستان کے ساتھ متحد رہ سکا بلکہ تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دکن خود بھی بہت کم عرصہ تک متحد رہا۔چناچہ۷۴۳۱ء میں یہاں ایک آزاد اور خود مختار بہمنی مسلم حکومت قائم ہوئی جو تقریباً دو سو سال تک قائم رہی اس سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کے بعد دکن میں پانچ آزاد اورخود مختار مسلمان ریاستیں قائم ہو گئیں یہ پانچ ریاستیں بیجاپور،گولکنڈہ،بیدر،احمد نگر اور برارپر مشتمل تھیں۔ان میں سے اردو زبان و ادب کے حوالے سے بیجا پور اور گولکنڈہ کی حیثیت اس لیئے ہے کہ ان کے حکمران ادب پرور اور سخن شناس تھے۔ انہوں نے نہ صرف یہ کہ اردو زبان و ادب کی سر پرستی میں ذاتی دلچسپی لی بلکہ اس زبان میں خود ادب بھی تخلیق کیا ۔ ان کے ادوار میں اہم شہروں میں اسی زبان کا چلن تھا۔بہمنی دور کے ایک شاعر قاضی محمود دریائی بیرپوری کا ایک شعر ملاحظہ ہو جسے آج بھی بغیر کسی مشکل کے سمجھا جا سکتاہے۔
پانچ وقت نمازگزاروں، دائم پڑوں قرآن
کھاؤحلال،بولومکھ ساچا،راکھو درست ایمان
یہ تاریخی حقائق اس بات کوظاہر کرتے ہیں کہ اردو زبان و ادب کا آغاز دکن میں ہوا کیونکہ جس وقت اس زبان کا ابتدائی ڈھانچہ دکن کے ساحلی علاقوں پر تیار ہو رہا تھا اس وقت سندھ پنجاب دہلی اور لکھنؤ والے زبان کے اس عربی و فارسی عنصر سے نا بلد تھے اور جب دکن میں اس زبان کا ادب تیار ہو رہا تھا اس وقت باقی ہندوستان جہاں مسلمان تھے وہاں فارسی میں اورجہاں مسلمان نہیں تھے وہاں مختلف پراکرتیں اور مقامی زبانیں یہ فریضہ سرانجام دے رہی تھیں۔یہ اعزازدکن کو حاصل ہے کہ اردو کا ابتدائی بیج اسی سر زمین میں بویا گیا اور اس زبان کا ادب بھی اسی سرزمین میں تخلیق ہوا۔
درج بالا تاریخی اور لسانی حالات کہ بناء پر نصیرالدین ہاشمی نے "دکن میں اردو"میں مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیئے ہیں۔
(۱)جب ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ بودوباش اختیا ر کرے تو یہ عمل ناگزیر ہے کہ بول چال ،کام کاج ، کاروبار یا پیشہ ورانہ امور میں ایک کے الفاظ دوسرے کی زبان میں منتقل ہو جاتے اردو کا آغاز بھی اسی طرح دکن کے ساحلوں پر ہوا۔
(۲)دکن میں عربی، مقامی زبانوں اور ہندی کے ملاپ سے اظہا ر کا ایک ابتدائی ڈھانچہ تیار ہوچکا تھا۔بہمنی سلطنت کے یہاں قیام کے بعد فارسی عنصر بھی اس میں شامل ہو گیا دکنی حکمرانوں نے یہاں تشکیل پانے والی "دکنی" (اردو) کی سرپرستی کی تو اس نئی زبان نے درباراور بازار کی حیثیت اختیار کر لی۔
(۳)کسی بولی کو زبان کا درجہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب اس میں ادب تخلیق ہو ۔اردو زبان کو یہ درجہ بر صغیر کے کسی بھی حصے کی نسبت دکن میں پہلے حاصل ہوا اس لیئے دکن ہی اردو کی جنم بھومی ہے۔
(۴)قدیم ادوار میں دکنی اور دکن کی علاقائی بولیوں کا بڑا ذخیرہ الفاظ دکھائی دیتاہے جو اس بات کا غماز ہے کہ اردو کی اولین صورت دکنی تھی۔
(۵) اردو نے دکن کے جن علاقوں میں نشوونما پائی وہا ں کی علاقائی زبانوں اور دکنی (اردو) مصدر کا قاعدہ ،تذکیرو تانیث اور واحد جمع کی بیشتر شکلیں یکساں ہیں۔
(۶)دکنی (اردو) میں وہاں کی علاقائی زبانوں کے زیر اثر اعلام و اسماء اور اسمائے صفات "الف"پر ختم ہوتے ہیں جب کہ برج بھاشا میں یہ "و" پر ختم ہوتے ہیں۔
(۷)گجرات اور دکن کے کئی علاقوں سے بعض کتبے اور دوسرے مواخذات ایسے دریافت ہوئے ہیں جن کی زبان پرانی اردو کے قریب تر ہے جبکہ اس دور میں پنجاب،یوپی اور سندھ میں جو مقامی زبانیں رائج تھیں وہ اردو سے مختلف تھیں۔
(۸)دکن کو اردوردسم الخط جو عربی و فارسی سے قریب تر اخذشدہ ہے میں بھی دوسرے علاقوں کی نسبت اولیت حاصل ہے۔
نصیر الدین ہاشمی کے بقول درج بالا تاریخی و لسانی حقائق اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ اردو کا آغاز کن سے ہوا۔
*****
۳۔اردو زبان کے آغازو ارتقاء کے بارے میں ڈاکٹر شوکت سبزواری کا نظریہ
ڈاکٹر شوکت سبزواری نے اردو لسانیات پر تفصیلی اظہارِخیال کیا ہے ماہرِلسانیات کے حوالے سے ان کا نام اردوکے اہم مصنفین میں شامل ہے اردو زبان و ادب اور اس کے آغاز و ارتقاء کے بارے میں اُن کے خیالات جائز مخصوص لسانی تقطہ لیے ہوئے ہیں وہاں یہ متنازعہ بھی رہے ہیں ان کی پہلی کتاب "اردو زبان کا ارتقاء"۶۵۹۱ء میں منظر عام پر آئی ۔ذیل میں ان کا اردو زبان کے آغاز کے بارے میں نظریہ کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔
۱۔اردو زبان کا اگرچہ مسلمانوں سے بہت گہرا تعلق ہے لیکن اس کا آغاز مسلمانوں کا مرہونِ منت نہیں یہ مسلمانوں کی ساختہ نہیں پرواختہ ضرور ہے۔
۲۔مولان شیرانی نے اردو کو پنجابی کی بیٹی کہا ہے ڈاکٹر شوکت سبزواری اس سے اتفاق نہیں کرتے بلکہ اردو کو پنجابی کی بہن خیال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مشابہت بیٹی اور ماں میں ہی نہیں ہوتی دو ماں جائی بہنوں میں بھی ہو تی ہے(اردو زبان کا ارتقاء)
۳۔ڈاکٹر شوکت سبزواری شورسینی پراکرت کو اردو کا ماخذ ہونے سے انکار کرتے ہیں اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ اردوکی صرفی اور نحوی خصوصیات پرایک نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو کا ماخذ شورسینی پراکرت نہیں کیونکہ شورسینی پراکرت میں جو اسماء صفات "واؤ"پر ختم ہوتے ہیں اردو میں ان کا آخری حرف "الف"ہے۔
۴۔ڈاکٹر شوکت سبزواری کے خیال میں اردو ،ہندوستانی یا کھڑی بولی قدیم ویدک بولیوں میں سے ایک بولی ہے جو ترقی کرتے کرتے آس پاس کی بولیوں کو کچھ دیتے کچھ لیتے موجودہ ترقی یافتہ شکل میں پہنچی ہے۔اُن کے خیال میں یہ زبان میرٹھ اور اس کے نواح میں بولی جاتی تھی۔
۵۔اردو اور پالی کا منبع ایک ہے ماضی میں پالی ترقی کرتے ہوئے ادب و فن اور فلسفہ کی زبان بن گئی جبکہ ہندوستانی (اردو) روزانہ بول چال لین دین اور کاروبار کی زبان بنی رہی اس سلسلے میں ڈاکٹر شوکت سبزواری کا کہنا ہے کہ پالی ادبی درجے کو پاکر ٹھہر گئی لیکن ہندوستانی (اردو) عوام کی زبان ہونے کی وجہ سے اور بازار پاٹ میں بولے جانے کے باعث برابر ترشتی ترشاتی اور چھلتی چھلاتی رہی ۔(اردو زبان کا ارتقاء)
۶۔اپنی دوسری کتاب "داستان زبانِ اردو"کے پیش لفظ میں وہ ڈاکٹر گریرسن اور سنتی کما رچیٹر جی کے نظریے کے قریب نظر آتے ہیں یعنی اردو جس زبان کسے ارتقاء پاتی ہے وہ کبھی بالائی دوآبے میں بولی جاتی تھی ۔سنسکرت ،پالی ،شورسینی پراکرت،مغربی اپ بھرنش بالائی دوآبے کی اس بول چال کی زبان کے مختلف العہد ادبی روپ ہیں ۔کھڑی یا ہندوستانی (اردو) اس کی فطری ترقی یافتہ یا بدلی ہوئی صورت ہیں۔
۷۔ڈاکٹر شوکت سبزواری اردو کے آغاز اور ارتقاء کے بارے میں اپنی ایک اور کتاب "اردو لسانیات"میں اردو کو گنگا جمنا کے دوآبے کی کسی نامعلوم پراکرت کی ارتقائی صورت قرار دیتے ہیں اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں "میرا خیال ہے کہ اردو نے جس پراکرت سے ارتقاء پایا وہ بول چال کی زبان تھی جو شورسینی پراکرت اور مغربی اپ بھرنش سے پہلے یا ان کے پہلو بہ پہلو دوآبہ کے بالائی حصے میں بولی جاتی تھی ۔پالی شورسینی مغربی اپ بھرنش اسی بول چال کی پراکرت کے نکھرے ہوئی ادبی روپ ہیں"
۸۔ڈاکٹر شوکت سبزواری اردو کے آغاز کے بارے میں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچتے جہاں وہ اسے میرٹھ اور دہلی کی زبان قرار دیتے ہوئے یہ بتاتے ہیں کہ یہ اپنے ہار سنگھار کے ساتھ آج بھی دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں بولی جاتی ہے وہاں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ معلوم نہیں کہ اردو کا آغاز انہی اضلاع میں ہوا یا کسی اور مقام میں ہوا جہاں اسے دہلی اور یوپی کے مغربی اضلاع میں لایا گیا۔
ڈاکٹر شوکت سبزواری کے نظریا ت کا جائزہ
ڈاکٹر شوکت سبزواری نے اردو کے آغاز کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ ایک طرف متنازعہ ہیں تو دوسری طرف ان میں کچھ حقائق بھی ہیں ۔ان کے نظریے کے حوالے سے بہت سے ایسے امکانات سامنے آئے ہیں جن پر مزید تحقیق اور غور و خوص سے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ڈاکٹر شوکت سبزواری نے کوئی نیا نظریہ پیش کیا ہے اور نہ ہی اپنے سے قبل پیش کردہ نظریات سے کسی کی توثیق کی ہے ۔گزشتہ تمام نظریات کی محض تردید کر دینے سے ان کا اپنا کام اور تحقیق لا حاصل بن جاتی ہے کیونکہ انہیں پڑھنے والے اردو لسانیات کے طلباء طالبات کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکتے پھر ایک اور بات یہ ہے کہ ان کے اپنے مختلف بیانات میں تضاد بھی ہے اردو کے آغاز و ارتقاء اور علاقے کے بارے میں وہ اپنے پہلے نقطہ نظر سے خود انحراف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔انہوں نے اردو زبان کے بارے میں جو رائے قائم کی ہے اس کی بنیاد صرف ونحو اور بنیادی ڈھانچے پر رکھی ہے وہ لغاتِ زبان،تراکیب،محاورہ،روزمرہ،تلمیحات اور زبان کے ادبی لوازمات کو نظر انداز کر دیتے ہیں اردو زبان پر ان کے تحقیقی کام کو اس لیے اہمیت حاصل ہے کہ یہ زیرِ بحث موضوع اور اس کے متنوع امکانات کے دروا کرتا ہے اور ان کی روشنی میں مستقبل کا محقق کسی بہتر نتیجے تک پہنچ سکتا ہے۔
*****
اردو لغت نویسی
لغت کی تعریف:
"لغت اپنے لفظی مفہوم کے اعتبار سے ایسا علم ہے جس میں کسی لفظ کی حقیقت،ماہیت،اصلیت اور مفہوم کی صحتِ تلفظ کے ساتھ بیان کیا جاتاہے ۔ایک معیاری لغت لفظ کو اس کے اشتقاق ،مصادر،تذکیرو تانیث،واحد جمع،اسماء و صفات،قواعدِ زبان اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس میں ہونے والے تغیرو تبدل کے حوالے سے قاری کو معلومات فراہم کرتی ہے"
لغت نویسی کے تقاضے:
لغت نویسی ایک مشکل اور کٹھن کام ہے اس سلسلے میں کام کی یکسانیت بعض اوقات اکتاہٹ اور بے زاری کا باعث ہوتی ہے۔یہ کام از حد احتیاط کا متقاضی ہے۔ اس کے لوازمات کو کماحقہ ہو پورا کرنا لغت نویس کیلئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔ذیل میں اس کے بعض تقاضوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔اہل زبان کی لکھی ہوئی لغت کو درجہ استعناد اور برتری حاصل ہے یہاں اہل زبان سے مراد وہ شخص ہے جس کی مادری زبان وہی ہو جو لغت کی زبان ہے ۔لغت نگاراگر ایک سے زیادہ ہوں تو کم از کم نگران اعلی کی زبان اور ماحول اردو کا پروردہ ہونا چاہیے۔
۲۔لغت میں زبان کے ہر خطے ،رواج کے ہر مرکز اور عہد بہ عہد تصرفات کا خیال رکھنا چاہئے اگر کسی مخصوص مرکز یا علاقے پر مبنی لغت ہو گی تو وہ دوسروں کیلئے مستند نہیں مانی جائے گی۔
۳۔لغت میں پیشہ وروں کی عام زبان اور اصطلاحات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔مختلف علوم و فنون کی اصطلاحات کی وضاحت بھی ایک معیاری لغت کی پہچان ہوتی ہے۔
۴۔لغت میں زبان کی جملہ اصوات اور اصوات کی نمائندہ علامات کا خیال رکھا جاتا ہے۔
۵۔لغت میں لفظوں کا اندراج ترتیب تہجی کے مطابق ہونا چاہئے۔حروف تہجی کی جملہ نوعتیں لغت نویسوں کے پیش نظر رہنی چاہیے تاکہ ترتیب لغت استواراور صحیح ہو۔
۶۔معیاری اور تفصیلی لغت میں حروف تہجی کی تقسیم نے حروفِ صحیح،حروفِ علت کے ساتھ ساتھ صوتی لحاظ سے ہلکی اور بھاری آوازوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے تاکہ تلفظ میں آسانی رہے۔جیسے بھاری حروف کی تختی "ہائے ہوز"کے ساتھ نہیں ہوتی بلکہ ہلکی آواز کے "ی"سے ترکیب پانے والے جملہ حروف کے بعد قائم ہو گی۔مثلاً ب ی کے بعد بھ کی تختی ہو گی۔
۷۔لغت میں اعراب و علت اور ان کی باریکیوں اور اقسام کا خیال رکھنا چاہیے کیونکہ انہی سے نظامِ اصوات قائم کیا جاتا ہے
Comments
Post a Comment